{ads}

سلیمان ہاشم 

 نلینٹ کے میر قاسم نے ہمارے بیلار کے سفر کے لئے ایک اونٹ تیار کیا۔ ہم شام تک بیلار کے سرسبز چاتی ڈگار کے کھجوروں کے باغات سے گھرے چاتی بند کے قریب نانا کی بستی میں پہنچ چکے تھے۔

  وہاں اپنےرشتے داروں کے ہاں دو دن ٹھہرنے کے بعد اچانگ میں نے فیصلہ کیا کہ میں تربت کے راستے کراچی جاؤں۔ 

 ان دنوں گوادر سے کیچ کا سفر بہت ہی کٹھن تھا۔ اس راستے میں بس سے تربت کی کوئی سروس نہیں تھی۔ وہ گوادر سنٹسر اور بیری چھات اور کھڈان سے ہوتے ہوئے تربت جاتے تھے۔ صبح 9 بجے نکلتے تو رات کے 9 یا 10 بجے تک تربت پہنچتے تھے۔

 ناکو بدل کیچ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اپنے اونٹوں پر گوادر سے نمکین مچھلیاں لوڈ کر کے کلانچ آئے تھے اور کیچ جانے والے تھے۔ وہاں ان مچھلیوں کے بدلے وہ کھجور گوادر لے جاتے تھے۔

میں نے ناکو سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا۔ میں نے اپنا بیگ تیار کر لیا تھا۔ مغرب کے وقت کارواں وہاں سے نکلا۔  رات کو ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں انہوں نے روٹیاں اور نمکین مچھلیاں پکائیں۔ ان کی خوشبو دور دور تک پھیل چکی تھی۔ اس طرح بھوک بھی زور کی لگ رہی تھی۔

 جنگل میں ہم لوگوں نے مچھلیوں سے روٹی کھائی۔ میں تھک چکا تھا۔ سوچا یہاں رات گئے وہ سو جائیں گے اور صبح جانا ہو گا۔ لیکن ناکو بدل نے رختِ سفر باندھا اور پھر اونٹ پر جوں ہی آگے بڑھے، مجھے  اونٹ پر ہی نیند آ گئی اور میرا اونٹ دیگر اونٹوں کے سنگ بغیر مہار کے چل رہا تھا۔

صبح سے پہلے میری آنکھ کھل گئی۔ اب تلار کی پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شاہد ہم لوگوں نے 15 یا 20 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہو گا۔ میں اتنے میں ہی اونٹ کی سواری سے بیزار اور تھک چکا تھا۔ ناکو بدل سے کہا کہ مجھےاونٹ سے نیچے اتاریں۔  

وہ سب پیدل چل  رہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ پیدل چل پڑا۔ 

اب ہم چاندنی رات میں تلار ندی تک پہنچ چکے تھے۔ گرمیوں کا سیزن تھا لیکن اس علاقے میں صبح سویرے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسم بڑا خوش گوار تھا۔

ایک ساربان بلوچی شعر گنگناتے ہوئے منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ راستہ کیسے کٹ رہا تھا، پتہ ہی نہ چلا۔ 

اب سورج نکلنے کے آثار ابھر رہے تھے۔ تلار کی پہاڑیوں میں گز اور کہیرکے درخت سرسبز تھے اور نشیبی علاقوں میں صاف شفاف نیلا پانی کافی مقدار میں جمع ہو چکا تھا۔ 

کچھ آگے بڑھے تو سورج بالکل نکل چکا تھا۔ ہرسُو روشنی پھیل چکی تھی۔

 آگے کچھ کچی پکی سنگلاخ پہاڑیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہمارے بائیں جانب  وہیں کچھ انسانی شکل کے مجسمے نظر آ رہے تھے۔ آگے ان کے جوں ہی قریب سے گزرے تو ناکو بدل اور دوسرے ساربانوں نے ان کو پتھر مارنے شروع کیے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر ساربان ان مجسموں پر پتھروں کی برسات ضرور کرتا ہوگا۔ ان کے رویے سے لگ رہا تھا کہ وہ ان کو دشمن سمجھ کر ان  سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

مجھے تجسس ہوا کہ ان مجسموں کا قصور کیا ہے؟ وہ مجسمے ہوبہو مرد عورت اور بچوں کے ہم شکل تھے۔ یہ سنگ تراش کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ میں نے کسی کتاب میں ان کے بارے نہیں پڑھا تھا۔ ان کی تاریخ  کا مجھے علم نہیں تھا۔ 

 ایسے لگ رہا تھا کہ کچھ حلیے گھوڑوں کے جیسے تھے لیکن ان کو توڑنے میں ہمارے لوگوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ 

پتھروں کے بنے کچھ بچوں کے جھولے نظر آ رہے تھے اور کچھ خیمہ نما گھر تھے۔ حاملہ عورت اور دیگر عورتوں کے بھی مجسمے نظر آ رہے تھے۔ سب کے سب پتھر سے تراشے گئے تھے۔

میں نے ناکو بدل سے کہا کہ حج چاچا! آپ لوگ ان مجسموں کو کیوں پتھر مارتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بلوچ قوم کے دشمن اور کافر تھے۔ انہوں نے ہمارے کلانچ کے بزرگ شے کوہی کے نوجوان بیٹے کو شہید کردیا تھا۔

میں نے کہا کہ یہ تو مجسمے ہیں، یہ کیسے کسی کا قتل کر سکتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ انسان تھے، ترک تاتاری ظالم وحشی انسان تھے، انہوں نے بلوچوں کا پیچھا کیا اور لاؤ لشکر کے ساتھ پانی کے ان چشموں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی بھنک جب کلانچ کے شہ کوہی کو پڑی تو انہوں نے اپنے  بیٹے شہ نوجوان اور ایک دو دیگر نوجوانوں کو بھیجا کہ وہ جا کر انہیں کہہ دیں کہ وہ اپنا لشکر لیکر واپس چلے جائیں۔

جب شہہ نوجوان وہاں پہنچا تو انہوں نے ان کو اپنے والد کا پیغام  سنایا۔ واپس جانے پر زور دیا، وہ نہ مانے۔ ایک روایات کے مطابق تاتاریوں نے تلوار سے شہہ نوجوان کا سر تن سے جدا کر دیا۔

 کہتے ہیں کہ شہہ نوجوان نے اپنا سر خود اپنے ہاتھوں سے اٹھایا اور واپس گھوڑے کی لگام کھینچی اور کلانچ کا شہہ کوہی اپنے والد کے پاس چلا گیا۔ 

اس کے برعکس کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھیوں نے ان کی لاش کو کلانچ پہنچایا۔

ان کے والد کو بہت زیادہ رنج ہوا۔ ان کی والدہ ماجدہ نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا تو انہوں نے اپنے شوہر اور شہہ کوہی کو کہا کہ مجھے میرا بیٹا زندہ چاہیے۔ تو شے کوہی نے کہا کہ تم اگر قوم کو برباد دیکھناچاہتی ہو تو میں اللہ سے دعا کروں گا کہ میرا بیٹا دوبارہ زندہ ہو۔ لیکن پھر یہ جنگجو ہمارے پورے علاقے پر قابض ہو جائیں گے، ہمیں اپنا غلام بنائیں گے اور ظلم و ستم کا بازار گرم کریں گے۔ اگر بیٹے کی شہادت قبول ہے تو میں ابھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگوں گا کہ ان کے لاؤ لشکر پتھر بن جائیں گے۔

 اور کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ 

آج سائنس کا دور ہے۔ انسان سوچتے ہیں کہ کسی دم یا چلے سے انسانوں کو پتھر نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔ بقول پرانے زمانے کے لوگوں کے یہ نشان عبرت کا بن چکے ہیں۔ 

اب اس میں کتنی سچائی اور کتنی صداقت ہے، اس بارے میں کئی روایات ہیں۔ بلوچی کلاسیکی شاعری میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔

تاتاری خانہ بدوش قبائل کی صورت میں بھیڑ بکریاں، گھوڑے لے کر صحرا میں پھرتے تھے۔ سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں جب کہ تاتاریوں نے چنگیز خان کی قیادت میں سارے ایشیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا، جلال الدین خوارزم کے تعاقب میں تاتاری منگول افغانستان کو تباہ و برباد کرتے ہوئے پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان اور ایرانی بلوچستان میں داخل ہوئے۔ تاتاریوں کے حملے کے خوف سے  سلطان التمش سندھ بھاگ نکلا تھا۔ تاتاریوں نے اس کا پیچھا کیا جلال الدین سلطان التمش کو پتہ چلا تو وہ کیچ مکران کے راستے سندھ اور ہندوستان تک چلے گئے۔

 اس کے ساتھ منگولوں کی فوج نے مکران کے مشرقی علاقوں میں قیام کیا اور لوٹ مار کرتے رہے۔

اس وقت تک یہ لوگ مسلمان نہیں تھے اور بڑے ظالم تھے۔ انہوں نے مکُران کے علاقے تلار کی پہاڑیوں میں پڑاو کیا۔ وہ کلانچ کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن انہیں موقع نہ مل سکا۔

 اس بارے میں مزید معلومات و تحقیقات کی ضرورت ہے۔ کسی نے اس جانب کوئی تحقیق نہیں کی بلکہ لوگوں نے نفرت میں ان مجسموں کو پتھ مار مار کر انہیں تباہ کر دیا ہے۔

 محکمہ آثارِ قدیمہ بلوچستان اس بارے میں کیا کرتا رہا ہے، کسی کے علم میں کچھ نہیں ہے۔

میں 2007 کو شے کوہی اور نوجوان کے مزار کوچو کلانچ اس وقت گیا جب کراچی سے ہمارے کچھ رشتے دارآئے ہوئے تھے۔ انہوں نے زیارت کے لیے اس مقام پر جانا تھا۔ ان کے مطابق ان کے خاندان کے اکثر مرد و خواتین صدیوں سے اس زیارت پر جاتے رہتے ہیں۔ وہ ان کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو پہاڑی کی ایک چوٹی پر ایک مٹی کا گنبد تھا۔ وہاں ان کا مقبرہ تھا۔ سن بھی تحریر تھا لیکن اب مجھے یاد نہیں رہا، غالباََ 14 ویں صدی کا زمانہ تھا۔

ہمارے رشتے دار زائرین نے وہیں قریبی ایک گاؤں سے ایک بکرا خریدا۔ زیارت کے مقام پر منجار نے اس کو ذبح کیا اور گوشت وہاں کے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہر روز زائرین آتے ہیں، دعائیں پڑھتے ہیں، اپنی مرادیں مانگتے ہیں، ان شہید بزرگ کے مقبرے کی زیارت کرتے ہیں اور چادریں چڑھاتے ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی