ایوب جاموٹ
بلوچستان جغرافیائی اہمیت، قدرتی و معدنی وسائل کی وجہ سے ہمیشہ سامراجی قوتوں کی نظروں میں رہا ہے۔ 27 مارچ 1948 کو پاکستان، بلوچستان کو جبراً الحاق کے ذریعے اپنا صوبہ بنا کر اس کے وسائل پر قابض ہو گیا۔ بلوچستان کی معاشی ترقی کو ترجیح دینے کی بجائے لسانی کشیدگی، فرقہ وارانہ فسادات و دہشت گردی کو فروغ دے کر بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے میں مصروف رہا۔
آج بھی بلوچستان میں فوجی آپریشن کر کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دہشت گردی جیسے ناسور کو جنم دے کر بلوچ سرزمین پر فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئی ہیں۔ اگر کوئی نوجوان اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے جبری طور پر لاپتا کیا جاتا ہے اور انہیں سچ بولنے کی پاداش میں ٹارچر کر کے قتل کیا جاتا ہے جو انسانی تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے تعلیمی اداروں میں جو پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں جس سے بلوچ کے لیے تعلیم حاصل کرنا ادھورا خوب بن کر رہ گیا ہے۔
ایک تو تعلیمی اداروں میں تعلیم کا فقدان ہے جس سے طلبا کا مستقبل اندھیروں میں گھرا ہوا ہے، دوسری جانب بلوچستان میں معاشی بدحالی، سیاسی افراتفری کی وجہ سے نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔
غیرموثر طرزِ حکومت نے بلوچستان کے عوام کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کی اہلیت پر اعتماد نہیں جس کی وجہ سے بلوچ قوم کے دل میں پارلیمانی سیاست سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور وه آج اپنے حقوق اور رياستی جبر کے خلاف نکلے ہیں۔
بلوچستان میں سویلین حکومت فوج کے ماتحت رہی ہے۔ فوج نے جب جب چاہا اپنے من پسند لوگوں کو غیرجمہوری طرز سے مسلط کیا۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں ابھی تک کوئی خود مختار جمہوری حکومت قائم نہ ہو سکی۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن، جبری گمشدگیوں کی روک تھام، ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے کے لیے قوم کو مل کر نکلنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام کو بالخصوص بلوچ نوجوانوں کو متحد ہو کر غیرجمہوری قوتوں کے خلاف سیاسی جہدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور سیاسی بنیادوں پر بلوچ طلبا تنظیموں اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کے ساتھ عام بلوچ کو بھی اس جہدوجہد میں شامل کرنا ہو گا۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کو پنجاب کا آلہ کار بننے کے بجاۓ اپنے قومی مفاد کا سوچنا ہو گا۔ جب کہ پنجاب کا سیاسی نظام دغا بازی، مکاری اور منافقت پر مبنی ہے۔ بلوچ کے وسائل پر قابض پنجابی سامراج کے ہاتھوں عام بلوچ بے روزگاری، ناخواندگی، تعلیم سے دوری کا نشانہ بنا ہے۔
آج ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے انفرادی بل بوتے پر وسائل کی لوٹ مار میں پنجابی سامراج کے ساتھ ہیں۔ ان سب کی روک تھام کے لیے نوجوانوں کو سیاسی عمل کو تیز کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاست سے متعلق علم و شعور حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے قوم کی امیدوں پر پورا اتر سکیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے زیادہ تر نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنی زمین سے نکلنے والے وسائل سے قطعی ناآشنا نہ ہوں بلوچستان کے سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو آئینی دائرے میں رہ کر سیاسی نظام کی درستگی کے لیے قوم کا اعتماد بحال کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا جس سے بلوچستان کا مستقبل مستحکم اور روشن ہو سکتا ہے۔
اختلافِ رائے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہر انسان کی اپنی سوچ ہے لیکن تنقید برائے تضحیک کو رد کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اتفاقِ رائے اور ایک نکتے پر جمع ہونے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اختلاف کسی بھی قسم کا ہو، اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار کا ہونا ضروری ہے۔
قوم پرست سیاسی جماعتوں کا اختلافات سے نکل کر ایک پیج پر ہونا وقت اور حالات کی اہم ضرورت ہے تاکہ بلوچستان پر مسلط سیاسی جمود کو توڑ کر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور بلوچستان کے وسائل پر قبضہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈز، فوجی چھاؤنیوں کے مکمل خاتمے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنایا جائے اور بلوچستان پر ستر سالہ استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔
ایک تبصرہ شائع کریں