{ads}


خالد میر


 میں نہ تو ماہرِ معاشیات ہوں اور نہ ہی مجھے معاشیات و حساب میں کوخاصی دلچسپی ہے۔ لیکن کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اس سے جڑی کچھ چیزوں سے انتہا درجے کی دلچسپی رہی ہے۔ یہ تحریر اسی دلچسپی کا سبب ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات اور کچھ ذاتی تجربے پر مشتمل ہے جس کا مقصد صرف معلومات کی ترسیل ہے.

کہا جاتا ہے کہ کرنسی (پیسے) کا سفر بارٹر سیل (اشیا کا باہم تبادلہ) سے شروع ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اشرفیوں، سونے چاندی کے سکوں کا رخ اختیار کیا۔ لوگ اب اشیا کے تبادلے کے بجائے اشرفیاں دے کر اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے لگے۔ حضرت انسان نے ترقی کی کچھ اور منازل طے کر لی اب اس سے اشرفیوں کا بوجھ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا، اور پھر سکوں نے کرنسی نوٹ (Paper Money) یا کاغذی پیسے کی صورت اختیار کر لی۔ کاربارِ زندگی چلتا رہا انسان ترقی کی مزید منازل طے کرتا رہا اور ایک وقت آیا جب زیادہ مقدار میں کرنسی نوٹ کی درآمد و برآمد بھی دشوار لگنے لگی تو اس نے زندگی کو مزید سہل بنانے کے لئے کرنی نوٹ کو نمبروں اور “پلاسٹک کارڈ” (ATM) میں بدل دیا۔

ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں پیسے کی بیانوے فیصد لین دین صرف نمبروں (Digits) میں ہوتی ہے۔ آپ اے ٹی ایم مشین پر جاتے ہیں، اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون سے کسی احباب کو پیسے منتقل کرتے ہیں اور اس طرح آپ کے اکائونٹ سے کچھ نمبر گھٹ جاتے ہیں اور آپ کے اُس احباب کے اکائونٹ میں نمبر بڑھ جاتے ہیں، اس طرح سے پیسے کی لین دین جاری رہتی ہے اور صرف آٹھ فیصد لین دین نقد (پیپر مَنی) کی صورت میں ہوتی ہے۔

لیکن کرنسی کا یہ سفر یہی رکا نہیں اور اپنے تسلسل کے ساتھ سفر طے کر کے اب “ڈیجیٹل کرنسی” Crypto/Digital Currency کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی یا کرپیٹوکرنسی برقی پیسہ کو کہتے ہیں جو متبادل کرنسی کا کام دیتی ہے۔ موجودہ وقت میں متبادل کرنسی کو مرکزی بینک کنٹرول نہیں کرتے اور نہ ہی قومی کرنسی اس کی پشت پناہی کرتی ہے۔

دنیا کی پہلی ڈیجیٹل کرنسی جاپان 2009 میں جاپان میں ایجاد ہوئی،اور اس کا نام “بِٹ کوائین” BitCoin رکھا گیا، Bit کمپیوٹر کی سب سے چھوٹی اکائی کو کہا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی کو اصطلاحی الفاظ میں مجازی/غیر حِسی Virtual/Crypto کرنسی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کرنسی کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں۔

1۔ یہ کرنسی کسی بھی حسی یا ظاہری شکل میں نہیں ہوتی، اس کا وجود چند پیچیدہ نمبرات (جن کو اندازے سے بنانا ناممکن کے قریب ہے) کی صورت میں کمپیوٹر کے کسی سرور یا ڈیوائس میں ہوتا ہے۔

2۔ یہ کرنسی دنیا بھر میں یکساں وجود رکھتی ہے اور کسی بھی حکومت یا نگراں ادارے کے ماتحت نہیں ہوتی، بلکہ ایک مستقل آزاد حیثیت میں دستیاب ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہر اس شخص کے ساتھ جو اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو دنیا کے کسی بھی خطے میں بنا کسی رکاوٹ اور کسی اتھارٹی کی منظوری کےبغیر معالی معاملات کئے جا سکتے ہیں۔

3۔ ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے معاملات طے پانے یا آپس میں تبادلے کے معاملات، درمیانی واسطے اور قانونی رکاوٹ نہ ہونے کے سبب بہت جلدی اور کم دورانیئے میں طے پاتے ہیں۔ ایک ٹرانزکشن 10 سے 15 سیکنڈز میں مکمل ہوتی ہے۔

4۔ چونکہ اس طرح کی کرنسی کے پیچھے کوئی حکومت یا ذمہ دار اٹھارٹی نہیں ہوتی، لہٰذہ اس کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کے غیر متوقع امکانات بھی کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کی طلب و رسد کا اندازہ لگانا حد درجہ مشکل ہوتا ہے۔

5۔ اس کرنسی کے لین دین کو اس طرح محفوظ گردانا جا سکتا ہے کہ ہر کرنسی کی لین دین کے پیچھے ایک واضح ریکارڈ مرتب ہوتا ہے جسے “بلاک چین” کہا جاتا ہے۔

6۔ اس وقت دنیا کے پچاس کے قریب ممالک اس طرح کی کرنسی سے انجام دیئے جانے والے معاملات کو قانونی حیثیت میں تسلیم کرتے ہیں۔

7۔ پہلی ڈیجیٹل کرنسی “بِٹ کوائن” سے گھر کی شاپنگ سے لے کر ہوائی جہاز کی ٹکٹ کی خریداری اور ہوٹل کی بکنگ تک کرا سکتے ہیں۔

8۔ اس وقت مارکیٹ میں سات سو سے زائد ڈیجیٹل یا کریپٹو کرنسیاں موجود ہیں۔

9۔ 2009 میں بٹ کوائن کی قیمت پاکستانی 2 روپے کے برابر تھی جبکہ آج ایک بٹ کوائن کی قیمت پاکستانی ایک لاکھ پیس ہزار کے برابر ہے۔ 

Khalidgraphy


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی