{ads}

ڈاکٹر شاہ محمد مری

شفاف عینکوں کے پیچھے سے زندگی سے بھرپور آنکھیں چمکتی تھیں، باشعور آنکھیں۔ چھوٹے قد میں ایک چہکتا دہن جو صحافیوں کی طرح نان سٹاپ بولتا جاتا تھا۔ مؤدب، مہذب مگر مؤقف گوئی میں سفاک۔ اپنے پیشے سے مخلص۔ خبر کااُس کے سرچشمے تک پیچھاکرتے رہنا۔

بلوچستان میں کوئی واقعہ ہوتا تو ارشاد، یا اُس کے ساتھ ہی موجود شاہد رند سمجھومؤرخوں، دانش وروں کے موبائل فونوں پر چڑھ جاتے اور بہت کرید کرید کر اُس واقعہ کا پس منظر اور اہمیت پوچھتے۔ اور باخبر کے پاس موجود معلومات کا آخری قطرہ تک چوس کر، تھینک یو کہتے چل پڑتے۔

اپنے پیشے سے بھرپور لطف لینے والا ارشاد کوئی بہت زیادہ علامہ نہ تھا، لیکن صحافت اُسے خوب آتی تھی۔ بلوچ سیاست سے اُس کی دلچسپی کسی دور اور کسی طور کبھی کم نہ ہوئی۔ ایک روشن فکر، مترقی اور مبنی بہ انصاف بلوچستان وہ بھی چاہتا تھا اور ہزاروں لاکھوں دوسرے بھی چاہتے ہیں۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک ارشاد کے مارنے سے یہ انسانی نیک خواہش کہاں مر سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ قاتل کا کام ہی ایسے لوگوں کو قتل کرتے رہنا ہے، ابد تک۔ کبھی ایک ایک کر کے اور کبھی اجتماعی طور پر۔

مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ نظریات و خیالات انسانی قوت و فرعونیت سے کہیں زیادہ سخت، اور سخت جان ہوتے ہیں۔ بغیر جڑ کے اگنے والا جنگل ہوتے ہیں نظریات۔ بغیر پہیے اور، پر، کے برق رفتاری سے چلتے ہیں نظریات۔ گُل گلاب کی خوشبو کی طرح بلاتفریق معطر کرتے ہیں نظریات ۔ آبِ حیات پیے ہوتے ہیں نظریات۔

تیرے قاتلوں کی بندوقوں کے پیچھے موجود سرپرست ذہنیت ہمیشہ کے لیے لنگ ہوجائے، شالا۔۔۔۔ دنیا بھر میں۔


 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی