{ads}

خلیل رونجھو: 

آج دنیا میں یوم ارض کہیں یا زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے، وہ ’زمین‘ جو انسانوں کا سب سے بڑا اور واحد ’بسیرا‘ ہے لیکن اسے سب سے زیادہ اور بڑا خطرہ انسانوں اور ان کے طرز زندگی سے ہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین کو ایک نازک دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ آج گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں کہیں ساحلی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خطرہ درپیش ہے تو کہیں پانی کی بدانتظامی سے خشک سالی کا شکار رینگتی زندگی کے ناپید ہوجانے کا خدشہ ہے۔ زمین کے اس نازک مسئلہ کے سبب اب یومِ ارض یا زمین کا دن ہر سال 22 اپریل کو منایا جاتا ہے۔

اس سال یومِ ارض کے لیے“ری ایسٹورنگ ارتھ” یا یوں کہیں کہ زمین کے قدرتی ماحول کی بحالی کے موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جس کا مرکزی نقطہ قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے متاثر ہونے والے زمین کے حصے کو بہتر ماحولیاتی نظام کے ذریعے اس کی حقیقی حالت میں بحال کرنا ہے تاکہ زمین کو درپیش ماحولیاتی خطرات سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

اس موقع پر یعنی کرہ ارض کا عالمی دن اور اس دن کی مناسبت سے جو تھیم رکھی گئی ہے، اس کا مطلب جاننا بہت ضروری ہے، ہم اکثر جو ماحولیات کو بہتر بنانے کی جب بات کرتے ہیں تو ہم صرف چند چیزوں کی جانب ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں کہ جیسے درخت لگا لیں، آلودگی نہ پھیلائیں یا ہم پلاسٹک سے گریز کریں، تاہم ریسٹوریشن کا مطلب یہ ہے کہ کرہ ارض کے کئی ایسے خطے جنہیں ہم نے اپنے استعمال سے بگاڑ دیا ہے۔ ان کو ہم دوبارہ ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ اب اس میں جنگلات بھی آسکتے ہیں، اس میں ہماری آبی گزر گاہیں بھی ہیں اور اس میں ہماری مٹی بھی شامل ہے، جس کی کوالٹی کو ہم مہلک قسم کے کیمیکل کے استعمال سے خراب کر رہے ہیں۔ ان چیزوں کا احساس کر کے اور ایسے کاموں کو روکنا آج کے دن ہمارا مقصد ہونا چاہیے اور ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کس طریقے سے اس بگاڑ ہے اس کو نہ صرف ختم کریں بلکہ اسے سنوارنے کی طرف لے کر جائیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے 1970 سے 2020 کے دوران 60 فیصد جنگلی حیات کی نسل زمین سے ختم ہوچکی ہے، تاہم یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں بلکہ آج بھی بیشتر جنگلی حیات اور ان کی خاص انواع و اقسام معدومی کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ماحول میں پیدا ہونے والی سخت تبدیلیاں نہ صرف انسانوں بلکہ جنگلی حیات پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کر رہی ہیں۔

ماحولیاتی مسائل پر راقم عرصہ دراز سے بطور سماجی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ لکھتا رہا ہے۔ گزشتہ سیکھنے و سکھانے کے عمل کے دوران بین الاقومی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک ورکشاپ میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر طاہر رشید جن کا شمار پاکستان کے ماہر ماحولیات میں ہوتا ہے ان کی سیشن کے دوران مجھے ایک اہم بات سیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ جو دنیا بھر میں موسیماتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان اثرات کی لوکل سطح پر نشاندہی کریں اور ان مسائل کا ادارک کریں کہ کس طرح ہم اپنے اپنے علاقے میں اس موسمیاتی تغیرات کے اثرات سے متاثر ہورہے ہیں۔

اگر ہم اپنے اردگرد رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں کا مشاہدہ کریں تو ہمیں وہ تمام تبدیلیاں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں جن کی عالمی سطح پر بات کی جاتی ہے،ہمارے ہیں۔ اکثر اوقات بارشیں نہیں برستی ہیں، اکثر علاقوں میں قحط کا سامنا ہوتا ہے اور کچھ علاقوں میں اچانک شدید بارشوں سے بہت سارے نقصانات کی اطلاعات سامنے آجاتی ہیں۔ سمندر حیات کا خاتمہ، سمندر کٹاو، دریاوں میں تیز پانی کے بہاو کی وجہ سے زمینی کٹاو اور دیگر اثرات تیزی کے ساتھ نظر انا شروع ہوگئے ہیں۔ صرف موسم ہی نہیں بلکہ انسانی سرگرمیاں بھی جنگلی حیات کے لیے سنگین مسئلہ پیدا کر رہی ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، منہدم عمارات، غیر قانونی شکار، ٹریفک کے مسائل، فضائی آلودگی اور کیڑے مار ادویات کا متواتر استعمال، غیر قانونی بھٹوں کی بہتات، جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات غیر معمولی عالمی تباہیوں اور جنگلی حیات کی تعداد میں نمایاں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ مقامی سطح پر بیلہ میں شہد کی مکھی اور کوئے ناپید ہوگئے ہیں کیونکہ بیلہ کی جدید زراعت میں ایسے کیمیکلز استعمال کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے چرند پرند کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہرے بھرے درختوں سے سجے یہ جنگلات ہی ہیں جو ان جنگلی حیات کے لیے بہتر اور سازگار ماحول فراہم کرسکتے ہیں، تاہم منافع اور غیر قانونی درختوں کی تیزی سے کٹائی اور لکڑی جلائے جانے کے عمل ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ایک عام انسان کیسے ماحول بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ایک حقیقیت ہے اور حقیقت کا ادارک نہ کیا جائے، اس سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ’ماحولیات اور خصوصاً کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیے۔ ہمارے تدریسی نصاب میں ابتدا ہی سے ماحولیات کا مضمون کو پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔ ہم اخبارات کے ذریعہ آگاہی کو فروغ دیتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے عوام کی اکثریت اخبار نہیں پڑھ سکتی۔ ’ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں‘۔ اس ضمن میں ٹی وی پر اشتہارات، دستاویزی فلمیں نشر کرنا خاص کر سوشل میڈیا پر ماحول دوست نوجوان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے سے موسمی تغیرات سے جڑی رپورٹس کو اگاہی اور ایڈوکسی کے لیے استعمال کریں۔

یہ حقیقت ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں ایک عام شہری کی بھی ذمہ داریاں ہیں کہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنے اور صحت مند رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرے۔ اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ چند معمولی باتیں جو بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں بعض دفعہ ہمارے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ غیر ضروری روشنیاں بند کریں۔ اپنے گھر اور گھر سے باہر جہاں ممکن ہو وہاں پودے اگائیں، ماحول دوست ٹرانسپورٹ استعمال کریں، پرانے اخبارات کو ردی میں پھینکنے کے بجائے انہیں مختلف کاموں میں استعمال کریں۔ اس طرح سے آپ درختوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کچرے کو بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے اور جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے، پانی کا احتیاط سے استعمال کریں، گوشت کی نسبت پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ہماری زمین کو نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس گوشت کے ذرائع مختلف جانور درخت اور پتے کھا کر ہمیں گوشت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کاغذ کم سے کم ضائع کریں۔ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں لہٰذا کاغذوں کا ضیاع کرنے سے گریز کریں۔ ایک صفحے کے دونوں اطراف لکھائی کے لیے استعمال کریں، مختلف اشیا کو ری سائیکل کریں یعنی انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔ پلاسٹک کی اشیا خصوصاً تھیلیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی جگہ مختلف ماحول دوست میٹیریل سے بنے بیگز استعمال کریں۔ اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔ اپنے بچوں کو بچپن سے ماحول دوست بننے کی تربیت دیں۔

 




Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی