{ads}

 شبیر رخشانی

پچھلے زمانے میں کہاوت ہوا کرتی تھی کہ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھو گے تو بہت کچھ سیکھ پاو¿ گے۔ جدید ٹیکنالوجی آئی تو اس نے تو سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا، اب بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا کوئی نوجوان گوارا نہیں کرتا ۔اگر گوارا بھی کرے تو خود ہی سینئر بن بیٹھتا ہے ۔بزرگ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ نوجوان ان سے نہیں بلکہ وہ نوجوانوں سے سیکھنے کے خواہاں ہےں۔ ہم تو اکثر نوجوانوں سے یہی سنتے ہیں کہ کہ، ’ارے فلاںبوڑھا ہو گیا ہے کسی کام کا نہیںرہا‘۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ جہاں بزرگوں کی محفلیں لگتی ہیں تو وہاں ان کے تجربات سے سیکھنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ضرور ترقی کر لی، پر بزرگوں کے تجربات ‘مشاہدات اور ان کی نظروں کے سامنے سے گزرنے والے حالات و واقعات میں نوجوانوں کے لیے سبق موجود ہے۔ بزرگوں کی باتوں میں چاشنی بھی ہے اور سنجیدگی بھی۔
سنڈے پارٹی بزرگوں کی بنائی ہوئی ایسی ہی جماعت ہے جہاں ہر دو ہفتے بعدبزرگوں کی ایک دیوان ضرور لگتا ہے۔ بوڑھا تو میں اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ کہیںآئندہ مجھے ان کے دیوان میں جانے کی اجازت نہ ملے یا کہیںوہ میری وابستگی کو بڑھاپے کی شرط میں نہ بدل لیں تو یعنی اس دیوان میں عمر، مذہب اور عہدوں کی کوئی قید و بند نہیں ہے۔ کشادہ دل اور ذہنیت کے مالک انسان اس کا حصہ بنتے ہیں ۔یہ سلسلہ تین دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ ماما عبداللہ جان جمالدینی کا لٹ خانہ سمجھو اب بھی زندہ ہے۔ بس اس کی صحبت میں ان کے شاگرد اور رفیق یہیں ان کے گھر ڈیرہ جما لیتے ہیں، خوش گپیاں ہوتی ہیں ،مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں، خاموشی چھا جاتی ہے ،پھر اچانک سے کوئی نیا سلسلہ اور نیا موضوع شروع ہوجاتا ہے۔
یوں تو آج کل ماما عبداللہ جان جمالدینی طبیعت کی ناسازی کا شکار ہیں اور وہ اپنے ان دوستوں کی محفل میں بیٹھنے سے قاصر ہیں ،پر سب دوستوں کا ان کی گھرآنا پھر دو گھنٹے کی گپ شپ کرنا تو یقینا ان سب کی آواز ماما عبداللہ جانا جمالدینی کی قوتِ گویائی تک ضرور پہنچ جاتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہوں گے۔
محفل میں اچانک کوئی موضوع چھیڑ دیا جاتی ہے پھر اس پر تبصرہ و خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جب کبھی محفل میں خاموشی چھا جائے تو محفل کی جان واجہ شاہ محمد مری صاحب اس خاموشی کو توڑنے کا کام کرہی دیتے ہیں۔ کوئی بات کر رہا ہے تو کوئی خاموش، تو کوئی مشاہدہ۔ غرض ہر ایک اپنے اپنے فن کے مطابق اس محفل کو چار چاند لگانے میں مصروفِ عمل۔
گذشتہ اتوار یعنی یکم مئی 2016کو جب واجہ عبداللہ جمالدینی کے گھر پردیوان رکھا گیا تو اس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، گل بنگلزئی، کامریڈ غلام نبی، شیام کمار، عابد میر، آغا سرور، پروفیسر جاوید اختر، پروفیسر شاہ محمودشکیب، اکبر ساسولی، جیئند خان جمالدینی، آزات جمالدینی جونیئر، بالاچ خان جمالدینی،عبیداللہ جمالدینی،عبدالحئی بنگلزئی اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں عبدالحمید شیرزادے اور شاہ بیگ شیدا کی کمی محسوس کی گئی۔ جن اشخاص کا نام لیا گیا ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو سنڈے پارٹی کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ دیوان میں قطعاً تکلف کی گنجائش نہیں۔نہ کسی کو چھوٹے پن کا احساس نہ کسی کو اپنے قد و کاٹ اور عہدوں کی کوئی پرواہ۔ بس سب نے اس کاحصہ بننا ہے۔ اور اپنے دلچسپ خیالات کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔

پچھلے 25سال سے اس دیوان کو ہفتہ وار منعقد کیاجاتا رہا ہے۔ ہر چھٹی کے دن یعنی پہلے جمعہ پارٹی ہوا کرتا تھایہ دیوان جب جمعے کے دن چھٹی ہوا کرتی تھی۔ پھر اللہ بھلا کرے نواز شریف کا کہ انہوں نے جمعہ پارٹی کو سنڈے پارٹی بنا دیا۔ عمر اور صحت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اب یہ پارٹی 14دن میں ہو جاتی ہے۔ اس پروگرام کو اٹینڈ کرنے والے بہت سے احباب تو باقاعدگی سے آتے ہیں جب کہ مجھ سمیت کچھ ایسے ممبر بھی ہیں جو معمول کا خیال نہیں رکھتے ۔
اس پارٹی کی صدارت کا عہدہ عبدالحمید شیرزادے کے پاس ہی ہے۔ پیشے سے وکیل لیکن شعر و شاعری کا انتہائی ذوق رکھتے ہیں۔ واجہ عبداللہ جان جمالدینی کے دوستوں میں سے ایک گل بنگلزئی بھی ہیں۔ جو پروگرام میں اپنی خاموش مزاجی کی مثال آپ ہیں۔ وہ نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ شاہ بیگ شیدا بھی کافی دلچسپ معلوم ہوتے ہیں براہوئی زبان میں شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی تنظیم بھی مکمل طور پر فعال ہے۔ سنڈے پارٹی میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔آزات جمالدینی جونیئر کافی متحرک انسان ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ اس دیوان کے دو گھنٹوں میں بیٹھتا نہیں، خاطر تواضع میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ سنڈے پارٹی کا انفارمیشن سیکرٹری ہے۔ وہ ہر سنڈے پارٹی کا ریکارڈ سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے۔ کیمرے سے تصویریں لے لیں اور انہیں سوشل میڈیا کا حصہ بنا لیا۔ یوں سمجھو کہ بندہ خدمت گار کی اتوار کی چھٹی یوں ہی خدمت اور اس سنڈے پارٹی کو رونق بخشنے میں گزرتی ہے۔
دیوان اپنے حساب سے جاری تھا کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے حاضرینِ مجلس کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ 8مئی کو ماما عبداللہ جان کی سال گرہ ہے تو اسے کب، کیسے منایا جائے۔ دوستوں کے متفقہ فیصلے سے یہ طے پایا کہ ان کی سالگرہ 15مئی کو رکھ لیتے ہیں جس کے لیے ایک پروگرام بلوچی اکیڈمی میں منعقد کیا جائے گا۔ مختلف دوست مضامین پیش کریں گے۔ ماما عبداللہ جان کی حیات پر روشنی ڈالیں گے۔ کچھ دوستوں کی خواہش تھی کہ اسے 8مئی ہی کو رکھا جائے،لیکن بعض دوستوں کی عدم موجودگی کے سبب اسے ایک ہفتہ بڑھا کر 15مئی طے کیا گیا۔ یوں یعنی 15 مئی ایک اور مصروف کن دن گزرے گا، جہاں سنڈے پارٹی بھی ہوگی اور ساتھ میں ماما جمالدینی کی برتھ ڈے پارٹی بھی۔
الغرض، سنڈے پارٹی ایک نہایت ہی خوش گوار پارٹی ہے جو تمام بزرگوں کی مجلس میں نوجوانوں کو جمع کرانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے پروگراموں سے استفادہ حاصل
کرنے کے لیے نوجوانوں کو جتن کرنے کی ضرورت ہے کہ بزرگوں کی محفل میں بیٹھ کر ان کی باتوں سے محظوظ ہو سکیں۔ گو کہ ایک نوجوان کو دو گھنٹے چپ کرانا مشکل کام ہے پر یہ دو گھنٹے انہیں بہت کچھ فراہم کر سکتے ہیں۔
سنڈے پارٹی نہ ہی اپنی ممبر سے کوئی فیس لیتی ہے اور نہ ہی کوئی سخت شرائط۔ بس آپ کو روشن خیال رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم تو بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ ان بزرگوں کا سایہ ہم پر قائم رہے۔

(یہ تحریر یکم مئی 2016 کو حال حوال ڈاٹ کام پر شائع ہوئی)



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی