{ads}

:ایڈیٹر

پاکستان میں گزشتہ ہفتے ہونے والی سیاسی اتھل پتھل کے بعد ملک میں ایک نئی سیاسی صف بندی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہ نما عمران خان کی گرفتاری پر خصوصاً پنجاب میں ہونے والے ردعمل نے پاکستان کی مقتدرہ کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور اس کی طاقت پہ سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

عمران خان کا ابھار اور ان کا ایک کلٹ بننا کچھ ایسا نیا مظہر نہیں، پاکستان میں یہ تجربہ اس سے پہلے ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر بھی کیا جا چکا ہے مگر اب کی بار اس کے نتائج یکسر مختلف ہیں۔ اس بار اس سارے کھیل کا مرکز پنجاب ہے جو مقتدرہ کا بھی ہوم گراؤنڈ ہے، اس لیے اب گھر میں جنگ شروع ہو چکی ہے۔

عمران خان کے چاہنے والوں نے جس طرح عسکری شخصیات اور تنصیبات کو نشانہ بنایا اور اس کے باوجود ملکی عدلیہ کی جانب سے انہیں تحفظ فراہم کیا گیا، اس کی نہ تو کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ اس کا کوئی موازنہ ممکن ہے۔ بلوچستان میں صرف "ون یونٹ توڑ دو" کا نعرہ لگانے پہ سیاسی رہنماؤں کو پرتشدد جیلوں کا نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی گوادر کی حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان کئی ماہ سے جیل کی پیشیاں بھگت رہے ہیں اور انصاف کے منتظر ہیں۔

ملکی عدلیہ کے اس رویے نے جہاں اسٹیبلشمنٹ کے روایتی محاذ کی اندرونی لڑائی کو واضح کر دیا ہے وہیں ملک میں ایک نئے "دو قومی نظریے" کا بھی اعلان کر دیا ہے۔  یہ دو قومی نظریہ ملک کی جڑوں میں تیزی سے سرایت کر رہا ہے اور پنجاب کے علاوہ دیگر قومیتیوں کو حاشیے پہ ڈالنے کی روایت کو واضح کر رہا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کا یہ کردار نہ صرف پاکستان کے مجموعی سیاسی مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے بل کہ یہ ملک میں آباد دیگر قومیتیوں میں مزید نفاق کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اس پہ قابو نہیں پایا جاتا تویقیناً موجودہ جغرافیے میں اپنا مستقبل محفوظ نہ سمجھنے والی اقوام کا مقدمہ مزید مضبوط ہو گا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی