{ads}

علی احمد لانگو


ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا نام آتے ہی سیاست میں سنجیدگی، بردباری، جہدِ مسلسل اور بصیرت و دانش ذہن میں آتے ہیں۔ جن کی شخصیت عوامی خدمت اور کمٹ منٹ سے بھرپور ہے جو سیاست میں تعمیری تبدیلی، تنقید و خود تنقیدی، اجتماعی قیادت و فیصلوں کے قائل ہیں۔ جنھوں اسمبلی کے اندر یا باہر ہمیشہ عوام میں رہنے کو ترجیح دی اور عوامی خدمت کو جاری رکھا۔ وہ تعلیم و صحت کے وزیر، سینیٹر اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ بہ حثیت وزیر انھوں نے تعلیم و صحت میں نمایاں اقدامات اٹھائے۔ سینیٹر کی حیثیت سے بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد میں سہرفہرست رہے۔ 18 ویں ترمیم جیسی اہم ترامیم  کا حصہ تھے۔ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں کے اختیارات میں اضافہ اور وسائل کو تحفظ دینے میں 18 ویں ترمیم تاریخی اقدام ہے۔ بہ حثیت وزیراعلیٰ امن کی مخدوش صورت حال کو بہتر کیا، تعلیم و صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کرنے، یونی ورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا قیام، پبلک سروس کمیشن کو میرٹ سے ہم آہنگ کرنے، محکمہ تعلیم میں ٹیچرز کی بھرتیوں کو شفاف اندازمیں پُر کرنے کے لیے این ٹی ایس کو بروئے کار لانے، 5000 ہزار اساتذہ اور 7000 سے زائد لیڈی ورکرز کو مستقل کرنے سمیت بے شمار تعمیری و اصلاحی اقدام کرتے ہوئے گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

عوامی رہبر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت سے قبل بلوچستان حالتِ خوف میں تھا۔ زندگی میں روح نہیں تھی۔ 2013 کے انتخابات سے قبل اورغالباً 2002 کے بعد بلوچستان تاریخ کی سنگین ترین بدامنی سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف خوف کا سماں تھا۔مذہبی فرقہ واریت کی بہ دولت روزانہ قتل و غارت جاری تھی۔ سیکڑوں لوگوں کو مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ہزارہ قوم سمیت سیاسی، سماجی اور ہر مکتبہ فکر کی ٹارگٹ کلنگ  روز کا معمول بن گیا تھا۔ اغوائے برائے تاوان کے 70 سے زائد گروہ اس منافع بخش کاروبار کا حصہ تھے۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ سمیت تمام شاہراہوں پر سفر کرنا غیرمحفوظ ہو گیا تھا۔ گاڑیوں کو روک کر عورتوں کے زیور تک ڈکیتی کی نذر ہو جاتے۔ مستونگ، قلات، خضدار، وڈھ سے لے کر پورے بلوچستان کے بازار معرب سے قبل بند ہو جاتے تھے اور کئی کئی دن ہڑتال کی بہ دولت کاروبار بند رہتا تھا۔ تعلیمی ادارے خالی رہ گئے تھے، علم کا حصول ممکن نہ رہا، ہسپتالوں میں کوئی سہولیات میسر نہیں تھیں۔ لیویز و پولیس مورال کھو چکے تھے۔ پولیس تھانوں کو کسی طرع سے ٹینڈر کیا جاتا اور تھانیدار بھاری رقم دے کر پوسٹنگ لیتا اور پھر لوٹ مار کرتا۔ پوسٹوں کی خرید وفروخت حتیٰ کہ پبلک سروس کمیشن میں پوسٹوں کی بولیاں لگی ہوئی تھیں۔

ایسے میں 2013 کے انتخابات ہوتے ہیں اور بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے نواز شریف نے اپنی پارٹی کے بجائے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بلوچستان نام زد کرتے ہوئے اقتدار کو اقدار پر فوقیت دی۔ تب ایک تاریخ رقم ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پہلی مرتبہ ایک عام سیاسی کارکن وزیراعلیٰ منتخب  ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کے لیے دو طرفہ چیلنج سامنے آیا: اول یہ کہ میاں نواز شریف و ملک بھر کے دانش ور، پڑھے لکھے طبقہ کا اعتماد، دوم بلوچستان کی مخدوش صورت حال۔ یہ اپنی سیاست کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا۔ لیکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ طویل سیاسی جدوجہد کی پیداوار سیاسی رہنما ہیں جو سیاسی بصیرت و دانش اور مدبرانہ قیادت سے اراستہ ہیں۔ وہ بلوچستان اور عوام کے حوالے سے درد رکھنے اور اس کا خاتمہ کرنے کا وژن رکھتے ہیں۔ 

انھوں نے ان تمام حالات کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور بہ تدریج بلوچستان کے حالات کو امن کی طرف گام زن کر دیا۔ اغوائے برائے تاوان کے گروؤں کا خاتمہ کردیا۔ شاہراہوں کو محفوظ بنا دیا، مذہبی فرقہ ورایت و انتہا پسندی کو روکنے میں کام یاب ہو گئے اور بلوچستان میں امن و امان تقریبا 70 فیصد سے زیادہ بحال کردیا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت نے جیسے ہی امن کو بحال کیا تو دوسری ترجیح تعلیم کو دی اور پہلے بجٹ میں تعلیمی بجٹ میں 2 فیصد سے 26 فیصد تک کا اضافہ کیا، تعلیمی اداروں کو میرٹ کی طرف گام زن کیا۔ آغازِ حقوق بلوچستان پیکج اساتذہ کو مستقل کیا اور نئے اساتذہ کو این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کروایا۔ پبلک سروس کمیشن میں میرٹ و غیرجانب دار چیئرمین کی تعنیاتی کو عمل میں لا کر تعلیم یافتہ اور مستحق نوجوانوں کو موقع فراہم کیا۔ جس سے ہونہار نوجوان اسسٹنٹ کمشنر سیکشن آفیسر تحصیلدار سمیت دیگر اعلیٰ پوسٹوں پر اپنی محنت سے تعنیات ہونے لگے۔

بلوچستان میں یونیورسٹیز قائم کرکے بلوچستان کے طلبا کو قریب ترین علاقوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔صحت کا شعبہ انتہائی اہم و بنیادی ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے صحت کے بجٹ میں اضافہ کرنے کے ساتھ 7000 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیا۔ ہسپتالوں میں جدید سہولیات فراہم کیں۔ ڈاکٹرز کو ہسپتال میں موجود رہنے لیے بہترین پیکج دیا۔ پہلے اور جدید طرز کے ٹراما سینٹر کے قیام کو عمل میں لائ ے۔میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لانے سے میڈیکل فیلڈ کو وسیع کردیا۔گوادر میں سیکڑوں اراضی جو مافیاز اپنے نام الاٹ کر چکے تھے، ان کو کینسل کیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نیشنل پارٹی کا ہمیشہ مؤقف رہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی مسائل بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وفاقی حکومت و اداروں کا قائل کیا کہ مذاکرات کے عمل کو شروع کیا جائے اور سیاسی کارکن کو لاپتا کرنے کو روکا جائے۔ وفاقی حکومت نے مؤقف کو تسلیم کیا اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مذاکرات کرنے کا اختیار دیا گیا، جس پر انھوں نے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا اور خاطر خواہ کام یابی بھی حاصل کی۔لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی دورِ اقتدار کے بعد مذکرات کے عمل کو روکا گیا۔

توتک کا سانحہ ایک بڑا و دل خراش واقعہ ہے۔ بہ حیثیت وزیراعلیٰ انھوں نے چیف جسٹس نور محمد مسکان زئی کی سربراہی میں بااختیار جوڈیشل کمیشن قائم کیا اور کمیشن نے غیر جانب دارانہ و شفاف تحقیقات و رپورٹ مرتب کی۔ جس کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اخبارات میں پبلش کروایا۔

 ڈاکٹر مالک بلوچ کی بہترین حکمتِ عملی سے مردم شماری میں قومی مقاصد و اہداف کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ڈھائی سال کے مختصر عرصے میں بلوچستان میں گورننس کرنے کی نئی و جدید مثال قائم کی۔ عرصہ تو ڈھائی سال کا تھا لیکن کارکردگی تاریخی اہمیت کی حامل رہی۔ اتنے کم وقت میں ناممکن کو ممکن کرنا صرف سیاسی بصیرت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مالک بلوچ کی زندگی طویل سیاسی جدوجہد پر مبنی ہے۔ جو ایک عام سیاسی کارکن کی زندگی ہے۔ وہ بلوچستان کے متوسط طبقے سے اولین سیاسی کارکن تھے جو وزیراعلیٰ بنے۔ اس سے قبل سرداروں و نوابوں کے بغیر کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ جس سے صوبے میں پسماندگی و لاچارگی بڑھتی گئی۔ جن کے اپنے علاقے تک تمام تر سہولیات سے محروم ہیں۔

عوامی رہبر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تربت کو دنیا کا جدید شہر بنا دیا ہے۔ جہاں ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ وہ بھی صرف قلیل ترقیاتی فنڈز سے اور اس کی وجہ کمیشن اور خرد برد کا نہ ہونا ہے۔ تربت کو جدید شہر ہونے کی تصدیق و تعریف سابق وزیراعلیٰ سمیت کئی اعلیٰ حکام کرچکے ہیں۔

نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے طویل سیاسی سفر کے بے شمار و بے پناہ پہلو ہیں۔ وہ بلاشبہ عوامی و سیاسی رہبر ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے 2018 کے انتخابات میں ایسے لوگوں کو دھاندلی سے منتخب کیا گیا جو نہ عوام سے سروکار رکھتے اور نہ  بلوچستان سے۔ اس لیے پھر سے بلوچستان کے حالات میں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

ادارے پھر سے اقربا پروری و بے جا مداخلت کا شکار ہو گئے ہیں۔ بدامنی کی لہر دوبارہ بلوچستان میں خوف کے ماحول کا باعث بن رہی ہے۔ نوکریاں برائے فروخت ہیں۔

2023 انتخابات کا سال ہے۔ بلوچستان کے عوام کو سیاسی شعور اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ عوامی طاقت ہی صوبے میں دھاندلی کو روکا جا سکتا ہے۔  بہتر مستقبل اور ترقی و خوش حالی کے تسلسل کے لیے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو دوبارہ کام یاب کروانا ہو گا۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی