{ads}

جاوید حیات

اس صبح ایسے ہی آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، مجھے جیونی میں ٹھہرے چار دن گزر چکے تھے۔ اب میں گوادر جانے کی تیاری میں تھا۔ ماسی شدری کے برآمدے میں ناشتہ کرنے کے بعد کاکا خدابخش مجھے جیونی بس اسٹاپ تک لے آئے تو وہاں معلوم پڑا کہ بس ابھی تھوڑی دیر پہلے نکل چکی ہے۔

پاس والے ہوٹل میں بیٹھ کر ہم نے چائے پی تو وہاں ایک آدمی نے بتایا کہ وہ سامنے سیاہ چھت والی پک اپ گاڑی گوادر جانے والی ہے۔ اس سمے ہوٹل میں نورخان بزنجو کے نئے البم آدینک کے گانے لاؤڈ اسپیکر پر ایسے گونج رہے تھے جیسے پربتوں سے آبشار گرتا ہو۔ اس سمے نیا نیا یہ البم ریلیز ہوا تھا۔

کاکا مجھے لے کر جلدی ڈرائیور کے پاس پہنچے تو ڈرائیور نے بتایا کہ آج یہ میری گاڑی نہیں بلکہ دلہن کی ڈولی ہے جو پہلے سے دولہا دلہن کی فیملی نے بک کر رکھی ہے اور یہ آخری گاڑی ہے جو گوادر جا رہی ہے۔ یہ سن کر میں مسکراتے ہوئے سوچنے لگا، آج کی شام پھر سے جیونی کی حسین کومل بانہوں میں گزرے گی۔ 

ڈرائیور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا، "تم بہت معصوم اور شریف لڑکے معلوم ہوتے ہو، کوئی دوسری گاڑی بھی نہیں ہے جو تمہیں گوادر لے جائے۔ تمہارے لیے اس فیملی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی صرف ایک صورت ہے، تم گوادر تک میری گاڑی کے کلینڈر بن جاؤ۔"

یہ سن کر میرے چہرے پر بیلا اور سورج مکھی کے پھولوں کی زردی چھا گئی۔ میرے کانوں میں شہنائیاں گونجنے لگیں۔ کاکا کو خداحافظ کہہ کر میں باراتیوں کی طرح گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈفلی بجاتے ہوئے بیٹھ گیا۔

سب سے پہلے گاڑی جیونی میں ایک بڑی چاردیواری کے سامنے رکی۔ وہاں دو عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گئیں۔ میں بہ طور کلینڈر(کلینر) ان کی چیزیں اٹھانے والا تھا کہ گھر والوں نے ہی ان کا سارا سامان گاڑی میں رکھ دیا۔

گاڑی جب گلی سے نکل گئی تو ٹیپ ریکاڈر پر نورخان بزنجو کی آواز میں آدینک البم کا وہی مدھر گانا بجنے لگا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے چائے کے ہوٹل میں رس برسا رہا تھا۔ (دستء پل ے دیم رکے چی بکناں دو آدینکاں صورت یکے چی بکناں)

گاڑی جب بندری پہنچی تو برسات کی بوندوں میں موتی برس رہے تھے۔ ایک جھونپڑی سے دولہا دلہن اور دوسرے رشتے دار اپنے بچوں کے ساتھ رم جھم میں بھیگتے ہوئے گاڑی میں سوار ہو گئے۔

انھوں نے بھی اپنی ساری چیزیں گاڑی میں خود رکھیں۔ میں نے صرف ایک چھوٹا سا بیگ اٹھا کر ان کے سامان کے اوپر رکھ دیا اور خود پیچھے اسٹینڈ پہ کھڑے ہو کر فضاؤں میں گراگ پرندے کی طرح اڑنے لگا۔

ہواؤں میں زمین کی بھینی خوشبو مہک رہی تھی اور گاڑی کے اندر نورخان بزنجو کی آواز مسک و مہلب چھڑک رہی تھی۔ (پدءَنوداں تبءِ گوارے)

آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک ماسی نے میری تھکاوٹ کو محسوس کرتے ہوئے اپنے بچے کو گود میں بٹھایا اور مجھے اپنا بڑا بیٹا سمجھ کر بغل میں بٹھا دیا۔

اب مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی عزیز کی شادی میں جا رہا ہوں۔

جب دلہن نے ایک سنگترہ میرے لیے ماسی کی طرف بڑھایا تو میری سماعتوں میں نورخان بزنجو کی آواز اور زیادہ رس گھولنے لگی تھی۔ (انچو مکاں بےسار منارا انچو مکاں بےسار)

جی چاہتا تھا کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو اور نورخان کی کومل آواز نیلے جزیروں تک گونجتی رہے۔

گنز کی بستی سے نکلتے ہی دولہے کا چہرہ چاند کی طرح چمکنے لگا کیوں کہ اگلا پڑاؤ پیشکان تھا جہاں وہ رہتا ہے، اس کی نیلی آنکھوں والی دلہن بندری سے تھی۔

نورخان کی دل فریب آواز کے ساتھ گاڑی پیشکان میں داخل ہوئی اور ایک بستی میں مٹی کی اینٹوں سے بنے ایک مکان کے سامنے بیری کے درخت کے سائے میں آ کر رک گئی۔

میں گاڑی سے سامان اٹھا کر نیچے رکھنے لگا۔ دولہا، دلہن سارے رشتے دار گاڑی سے اتر کر مکان کے اندر چلے گئے۔ وہاں ایک عورت شادمانی کا گیت الہان کرنے لگی۔ پڑوس میں ایک خاموش کھڑکی سے بھی نورخان کی آواز بلبل کی طرح چہک رہی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

گاڑی پیشکان کے بازار سے نکل کر نور خان کی آواز کے سحر میں گوادر کی طرف روانہ ہو گئی۔

وہ دونوں عورتیں تھانہ وارڈ میں اتر گئیں، گاڑی اپنے آخری اسٹیشن پرانے بس اسٹاپ پر آ کر رک گئی اور آسمان سے پھر سے بوندیں برسنے لگیں۔

جب میں نے ڈرائیور کو کرایہ دیا تو انھوں نے پیسے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا، " تم نے آج ایک پسنجر کی طرح نہیں میرا کلینڈر بن کر سفر کیا ہے۔"

اس خوش گوار اور یادگار سفر کے لیے میں نے اس کا ڈھیروں شکریہ ادا کیا۔

جب میں شاہی بازار کی تنگ گلی سے گزر رہا تھا تو ایک اجنبی ٹیپ ریکارڈر تھامے سگریٹ کے کش لیتے ہوئے میرے سامنے سے گزرا، اس کے ٹیپ ریکارڈر پر بھی نورخان بزنجو کے آخری البم آدینک کی چمک کھنک رہی تھی۔
( بےاوست ہر کس بےاوست ہرکس بےایمان چہ شھرا مئے دل پرشتء)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی