{ads}

عبیداللہ بلوچ

وڈھ شہر سے چار کلومیٹر دور مشرق میں واقع لوہی میں ایک شان سے کھڑا چھ سو سالہ بزرگ خت کا درخت اپنے نصیب پر آج ایک بار پھر نازاں تھا کہ بلوچ وطن کا ایک عظیم فرزند اپنی مٹی سے محبت میں  واجب اور ناواجب قرض اتار کر اس کی چھاؤں میں آسودہ خاک ہونے آ رہا تھا۔ سردارعطااللہ مینگل کی زیتون کے اس بزرگ درخت جسے بلوچی میں خت کہتے ہیں، سے محبت اور عقیدت کی صدیوں پرانی ان کی وفات سے زندہ ہو کر زبان زدِ عام ہو گئی۔ 

یہ محبت اورعقیدت ایک اور فرزند وطن کی فہم و فراست، شجاعت اور قربانیوں کو خراجِ عقیدت تھی جس نے بلوچ وطن کی سرحدیں زورِ تلوار سے وہاں تک پھیلائیں جہان تک بلوچی زبان بولی جاتی تھی۔ یہ عظیم بلوچ فرزند خان اعظم میر نصیر خان نوری تھے جس نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔ قلات جیسی چھوٹی سی باجگزار ریاست کی سرحدات کو تمام بلوچ علاقوں تک پھیلا دیا۔ تمام بکھرے بلوچ قبائل کو یک جا کر کے انھیں ایک جغرافیائی وحدت عطا کر کے خود مختار بلوچستان قائم کردیا۔

نوری نصیر خان نے جو بلوچستان قائم کیا، اس کا کل رقبہ 340000 مربع میل تھا جو برطانوی قبضے کے بعد تین ممالک پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم ہوا۔ اسی کردار کی وجہ سے مولائی شیدائی نے انھیں بلوچوں کا بسمارک اور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے انھیں بلوچوں کا پیٹراعظم قرار دیا۔ بلوچ محقق اور مؤرخ فاروق بلوچ نصیر خان اعظم کی شان میں ان الفاظ کو کم سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ نصیر خان نہ صرف ایک عظیم شخصیت کا نام ہے بل کہ اپنے آپ میں ایک عظیم عہد تھے۔

 خان اعظم جہاں قیام کرتے تھے وہ جگہ، وہ میدان، وہ ندی، وہ شکار گاہ اور وہ درخت تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے تھے۔ خان نا خت کی چھاؤں میں نصیر خان نوری قیام کرتے تھے۔ جرگے منعقد کرکے فیصلے کرتے تھے۔ خان اعظم کے عہد ساز کردار نے جدید بلوچ قوم پرست سیاست کے چار ستون میں سے ایک سردار عطااللہ مینگل کو اتنا متاثر کیا کہ وہ اپنی زندگی میں اکثر خان نا خت کی چھاؤں میں بیٹھ کر تاریخ سے سرگوشی کرتے تھے۔

آج عظیم سیاسی رہ نما سردار عطااللہ مینگل کو قوم سے بچھڑے دو سال ہو گئے۔ آپ مینگل قبیلے کے سربراہ میر رسول بخش مینگل کے گھر 13 جنوری 1930 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بیلہ میں حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرسہ کراچی اور ایچی سن کالج لاہور سے مزید تعلیم حاصل کی۔ 1962 کے انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے ممبر قومی اسمبلی بن گئے۔ ایک شعلہ بیان مقرر اور معاملہ فہم زیرک سیاست دان کی حیثیت سے جلد اپنا الگ نام و مقام بنا لیا۔ 

میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، میر گل خان نصیر اور دیگر رفقا کے ساتھ مل کر ون یونٹ کے خلاف صبر آزما جدوجہد کی اور ون یونٹ توڑ کر بلوچستان کو صوبائی حیثیت دلوانے میں کام یاب ہو گئے۔ 1972 کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان میں کامیاب ہوئی اور سردار عطا اللہ مینگل وزیراعلیٰ بن گئے۔ وہ مئی 1972 سے 31 فروری 1973 تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔ اس مختصر مدت میں جامعہ بلوچستان، بولان میڈیکل کالج، خضدار انجینئرنگ کالج، بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا قیام عمل میں لا کر بلوچستان کی تعلیمی سمت کا تعین کیا۔ بھٹو کی خواہش اور شاہ ایران کی فرمائش پر سردارعطا اللہ مینگل کی حکومت ختم کرکے ان کو رفقا سمیت حیدرآباد سازش کیس میں قید کر لیا گیا۔ قید سے رہائی کے بعد طویل عرصے تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔

1990 کی دہائی میں جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آئے اور سیاست میں دو بارہ فعال کردار ادا کیا۔ 6 دسمبر 1996 میں بلوچستان نیشنل موومنٹ اور پاکستان نیشنل پارٹی کو ضم کر کے بلوچستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ایک متحرک سیاسی زندگی گزار کر 2 ستمبر 2021 کو اپنی  قوم اور وطن سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ اپنی سرزمین کی آزاد فضاؤں میں خوش حال زندگی کا  خواب سردار عطااللہ مینگل نے بلوچ قوم کے ساتھ مل کر دیکھا تھا۔ اس خواب کی پاداش میں جوان بیٹوں کی گم شدگی، شہادت، قید و بند اور جلاوطنی بلوچ قوم کی مشترکہ میراث ہے۔ سردار عطااللہ مینگل اپنا خواب نئی نسل کو منتقل کر چکے ہیں۔ 

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی