{ads}

 

حال حوال

ارشاد مستوئی کی فکری جدوجہد کا آغاز محض چھ برس کی عمر میں ہی ہو چکا تھا، جب اپنے بڑے بھائیوں کی صحبت میں وہ کمیونسٹ پارٹی کی سکول کے طلبہ کے لیے قائم کردہ ذیلی تنظیم ساتھی نونہال سنگت کا رکن بن گیا۔

سات برس کی عمر میں اس نے کوئٹہ میں یوم مئی کے حوالے سے میر غوث بخش بزنجو کی صدارت میں منعقدہ ایک جلسے میں فیض احمد فیضؔ کی مشہور نظم ’ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے‘ پڑھی، جس پہ بہت ساری داد وصول کی۔ اس کے بعد 9 برس کی عمر میں آرٹ کونسل کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں ’بچے اور ہمارے ادیب‘ کے عنوان سے ایک زوردار تقریر کی۔ اس کے اندازِ خطابت سے متاثر ہو کر صدرِ مجلس سندھ کے مہان شاعر شیخ ایاز نے اسٹیج پہ آ کر اس کے گال چوم لیے۔ اگلے روز کے ’ڈان‘ اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا کہ 9 سال کا ایک چھوٹا سا بچہ جسے ایک ٹیبل پہ کھڑا کر کے اسٹیج پہ لایا گیا، نے نہایت زبردست دلائل اور اندازِ خطابت سے سارا پروگرام اپنے نام کر لیا۔

14 برس کی عمر میں ارشاد نے اپنے آبائی علاقہ جیکب آباد سے ایک ماہنامہ منزل کا اجرا کیا، جسے وہ ہاتھ سے لکھتا اور پھر فوٹو اسٹیٹ کر کے شہر بھر میں تقسیم کرتا۔ 1999 میں تعلیم کے سلسلے میں وہ کوئٹہ منتقل ہوا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بی فارمیسی میں داخلہ لیا۔ کوئٹہ میں اپنے بھائی ڈاکٹر سعید کے ساتھ قیام کے دوران وہ ادبی حلقوں میں بھی خاصا سرگرم رہا۔ یہیں سے اسے صحافت کا شوق چرایا۔

عملی صحافت کا آغاز اس نے 2003ء روزنامہ بلوچستان نیوز میں پروف ریڈنگ اور سب ایڈیٹنگ سے کیا۔ روزنامہ مشرق کے ادبی صفحے کا انچارج رہا۔حیدرآباد سے شائع ہونے والے سندھی روزنامہ ’ہلچل‘ کا کوئٹہ میں بیورو چیف بنا۔ سرائیکی چینل ’روہی‘ کے لیے کوئٹہ سے کام کیا۔ ’آن لائن انٹرنیشنل نیوز نیٹ ورک‘ سے بطور رپورٹر وابستہ ہوا۔ اس دوران ایکسپریس نیوز کے لیے بھی رپورٹنگ کی۔ 2010ء میں اسے آن لائن کا بیورو چیف بنا دیا گیا۔ 2013ء سے جزوی طور پر اے آر وائی نیوزکے اسائنمنٹ ایڈیٹر کے بطور بھی کام کیا۔

اس کے سخت محنتی رویے کے باعث ہی اس نے محض دس برس کے قلیل عرصے میں صحافتی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ 2014ء میں ہونے والے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات میں اسے صوبائی جنرل سیکریٹری منتخب کر لیا گیا۔

2009ء میں گوادر میں این ایف سی ایوارڈ کے سلسلے میں ہونے والی تقریب کی رپورٹنگ کے لیے جانا ہوا، اس دوران ہوٹل میں قیام کے دوران سگریٹ پھینکنے کے لیے ہاتھ کھڑی سے باہر نکالا تو ہاتھ گیارہ ہزار ٹرانسمیشن لائن سے ٹکرا گیا، جس سے اس کا چہرہ اور ہاتھ بری طرح جھلس گئے۔ اس حادثے میں اس کا دایاں ہاتھ ضائع ہو گیا۔ لیکن ارشاد نے ہمت نہ ہاری اور بائیں ہاتھ سے لکھنا اور کمپیوٹر پہ کمپوزنگ کا کام شروع کر دیا۔ 2010ء میں کوئٹہ کے لیاقت بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی اس کے سر پہ شدید چوٹیں آئیں اور متعدد ٹانکے لگائے گئے۔

28 اگست 2014ء کی شام وہ کبیر بلڈنگ میں واقع اپنے دفتر میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا کہ دفتر میں گھس کر اسے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے ارشاد مستوئی اور اس کے دو ساتھی موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

ارشاد نے سوگواروں میں سیکڑوں ساتھیوں اور خاندان کے کئی افراد کے علاوہ ایک بیوہ اور تین بچے چھوڑے ۔ جن میں سے اس کی شہادت کے وقت بڑی بیٹی کی عمر چار سال، چھوٹی کی دو سال، جب کہ بیٹا محض آٹھ ماہ کا تھا۔



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی