{ads}

 

خالد میر


مجھے زندگی میں کبھی سائنس اور ریاضی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی، در حقیقت مجھے لگتا ہے کہ میں ‘حساب کتاب’ کا بندہ ہی نہیں اور خود کو ‘فارمولوں’ میں الجھانا نہیں چاہتا۔ سادہ بلوچ ہوں، سادہ اور سہل باتیں ہیں سمجھ آتی ہیں۔ بجٹ چونکہ ‘حسابیات’ کے ساتھ ساتھ ‘سیاسیات’ کا معاملہ ہے اس لیے اس میں میری بھی اتنی ہی ‘دلچسپی’ رہی ہے جتنی ہر عام آدمی کی ہوتی ہے۔ جی وہی عام آدمی و عوام جسے سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، ووٹ کیوں اور کس کو دینا ہے پتا نہیں ہوتا، لیکن ہر سیاسی مسئلے پر اپنی ‘ماہرانہ رائے’ کا اظہار کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔

سیاست چونکہ میری دلچسپی کی فہرست اہمیت رکھتی ہے اور میری سیاسی تربیت کے ابتدائی ایام میں مجھے “جس کی معیشت، اس کی سیاست” کا اصول پڑھایا گیا تو اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ ‘بجٹ’ والے ‘حساب کتاب’ میں ٹانگ اڑانی پڑتی ہے۔ اس ہماری تربیت کا ایک اور اصول یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ‘ٹانگ’ اڑائو اس کے متعلق کم از کم بنیادی علم ضرور حاصل کر لو۔

میں حسابیات کے فارمولے نہیں جانتا، ان میں نہیں الجھ سکتا۔ لیکن ‘تربیت’ کی لاج رکھنے کے لیے معشیت اور بجٹ کے کچھ کے متعلق ‘بنیادی علم’ کے حصول کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ ‘نکما آدمی’ ہوں اور کام کو، ہر بات کو آسان و سہل انداز میں سمجھنے اور کرنے کا طریقہ ‘دریافت’ کرنے کی کوشش میں رہتا ہوں، اور اکثر اوقات اس کوشش میں کامیابی بھی نصیب ہوتی ہے۔ اور پھر صد شکر اس جدید ٹینکالوجی و ‘گوگل’ کا جس نے معلومات تک رسائی انتہائی آسان بنا دی۔ اب مجھ جیسے نکمے افراد کو کوئی خاص معلومات کو حاصل کرنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں کتابوں والی لائبریروں کا رخ کرنے کے لیے پیروں کو زحمت تک نہیں دینی پڑتی، صرف انگلیوں کی کچھ زحمت اور تلاش سے مطلوبہ معلومات ‘اسکرین’ پر مہیا ہو جاتی ہے۔

بہرِ حال بات ہو رہی تھی بجٹ کی، اور بجٹ کے متعلق میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ “آمدن و اخراجات کے تخمینہ کو بجٹ کہا جاتا ہے”۔ اگر آپ اس کے متعلق مزید کچھ جاننا چاہتے ہیں تو کسی ماہرِ معاشیات یا گوگل بابا سے رابطہ کریں۔

ایک عام سی بات ہے کہ ہر فرد، گھر اور ادارہ بھی اپنا اپنا بجٹ بناتے ہیں (افراد اور گھروں کا بجٹ اکثر وبیشتر غیر تحریری صورت میں ہوتا ہے) بجٹ بنانے میں اصول ایک ہی استعمال ہوتا ہے، آمدن کے مطابق اخراجات کا تخمینہ۔ لیکن جب بات ریاست یا حکومت کی آتی ہے تو یہ ‘فارمولا’ تھوڑا سا بدل جاتا ہے۔ حکومت بجٹ بناتے وقت آمدن کے بجائے اپنے منصوبوں کو مدِ نظر رکھتی ہے، مطلب اخرابات پہلے دیکھے جاتے ہیں پھر آمدن۔ یہی وجہ ہے کہ مملکتِ خداداد میں ہمیشہ ‘خسارے کا بجٹ’ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر گھریلو بجٹ کی طرح آمدن کو مدِنظر رکھ کر بجٹ بنایا جاتا تو کبھی خسارے کا بجٹ پیش نہ ہوتا لیکن اس صورت میں شاید سیکڑوں ترقیاتی منصوبے بھی شامل نہیں ہو پاتے۔

یہ تو رہا بجٹ بنانے کا بنیادی فارمولا۔ اب بات کرتے ہیں اس کی تقسیم پر۔

پاکستان میں بجٹ کی تقسیم کے لیے جس فارمولا کو استعمال کیا جاتا ہے اس کا نام “نیشنل فنانس کمیشن” المعروف “این ایف سی” ایوارڈ ہے۔ دراصل نیشننل فنانس کمیشن وہ ‘ادارہ’ ہے جو اس ‘ایوارڈ’ مطلب تقسیم کا فارمولا طہ کرتا ہے۔ پاکستان میں آخری بار یہ کمیشن 2010 میں بیٹھا تھا، آئینی طور پر اس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے لیکن جب تک نیا کمیشن نہ بیٹھے یا کمیشن کی جانب سے نئے ایوارڈ کا فیصلہ نہ ہوایک صدارتی حکم کی بنیاد پر پچھلے ایوارڈ کو ہی بنیاد بنا کر وفاق اور صوبوں میں بجٹ کی تقسیم جاری رہتی ہے اور پاکستان میں اس وقت گزشتہ سات سالوں 2010 والے فارمولہ کے تحت ہی بجٹ کی تقسیم ہوتی ہے۔

2010 کا این ایف سی (جو کہ پچھلے تمام ایوارڈز سے بہتر سمجھا جاتا ہے) کے مطابق پاکستان کے بجٹ کا بیالیس اعشاریہ پانچ فیصد %42.50 حصہ وفاق رکھے گا جو کہ ‘وفاقی امور’ کے لیے مختص ہوتا ہے جب کہ باقی کا ستاون اعشاریہ بانچ فیصد حصہ چار صوبوں میں تقسیم ہوتا ہے، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

پنجاب کا حصہ اکاون اعشاریہ چوہتر فیصد(%51.74)، سندھ پچیس اعشاریہ اکیس فیصد(%25.21)، خیبر پختونخواہ سولہ اعشاریہ بیالیس (%16.42) اور بلوچستان کا حصہ نو اعشاریہ صفر نو فیصد(%9.09) ہے۔

اب اگر آپ کو بھی میری طرح ‘فارمولے’ سمجھنے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے تو میں آپ کو آسان طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

فرض کر لیں پاکستان کے پاس اس سال ایک سو روپے ہیں۔ اس ایک سو روپے میں سے بیالیس اعشاریہ پانچ (مطلب ساڑھے بیالیس روپے) وفاق کا حصہ ہے۔ اب باقی کے ساڑھے ستاون روپے چاروں صوبوں میں تقسیم ہوںگے۔ اور فارمولے کے مطابق ‘اپنا حصہ’ مطلب بلوچستان کا حصہ نو اعشاریہ صفر نو فیصد ہے اور ساڑھے ستاون روپے کا نو اعشاریہ صفر نو فیصد کتنا بنتا ہے؟ پانچ روپے اٹھارہ پیسے۔

سادہ اور آسان سی بات ہے جی، پاکستان کے ایک سو روپے کے بجٹ میں بلوچستان ( جو کہ ملک کا بیالیس فیصد رقبہ ہے) کا حصہ صرف پانچ روپے اٹھارہ پیسے ہے۔

اس تقسیم کے ‘جواز’ کے لیے این ایف سی میں بھی ایک ‘فارمولا’ موجود ہے جس میں چار چیزوں (آبادی، غربت و پسماندگی، محصولات اور آبادی کی کثافت) کو بنیاد بنایا گیا ہے اور اس کی تقسیم کی ترجیحات میں بیاسی فیصد%82 آبادی، دس اعشاریہ تیس فیصد %10.30 غربت و پسماندگی، پانچ فیصد%5 محصولات، اور دو اعشاریہ ستر فیصد %2.70 ‘آبادی کی کثافت’ شامل ہے۔ واضح رہے کہ آبادی کی کثافت خصوصاً بلوچستان کے لیے شامل کی گئی ترجیح ہے، اس سے مراد زیادہ رقبے پر آباد کم یا ‘منتشر’ آبادی ہے۔

بحرصورت ان تمام ‘فارمولے’ اور ‘اصولوں’ کے مطابق بجٹ میں بلوچستان کا حصہ سو میں سے پانچ روپے اٹھارہ پیسے ہے۔ اس لئیے آپ عوام الناس سے گزارش ہے کہ فی الحال اسی میں گزارہ کریں اور خدا کے شکر کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت اور اٹھارویں ترمیم کا بھی شکریہ ادا کریں کیونکہ اس سے قبل بجٹ کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی اور اس تقسیم میں وفاق کا حصہ پچاس فیصد تھا اور بلوچستان کا حصہ سات فیصد اور اُس حساب سے پاکستان کے سو روپے میں سے بلوچستان کو ساڑھے تین روپے ملا کرتے تھے۔ اب ساڑھے تین روپے سے آپ کو پانچ روپے اٹھارہ پیسے ملنے لگے ہیں۔ اس پر اب اگر آپ شکرانے کے ‘نوافل’ ادا نہیں کرتے تو آپ سے بڑا ناشکرا شاید ہی کوئی ہو۔

خدا ہم سب کو اسی طرح ‘صابر’ و ‘شاکر’ ہی بنائے رکھے (بولو آمین)۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی