{ads}



تحریر: اسحاق رحیم 
بلوچی سے ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 

ہم نے قدیر لقمان کے گھر پر دوپہر کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔ پھر تربت بازار کی طرف نکل گئے۔ وہ تربت جوکہ ایک زمانہ میں علاقہ در علاقہ پر مشتمل ہوا کرتا تھا، اَب ایک مکمل شہر بن چکا ہے۔ گزشتہ آنے والے سیلاب اور طوفانوں سے لے کر ناموافق، ناسازگار حالات اور واقعات نے کیچ کے نواح اور دیگر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تمپ، مند سے لے کر دشت، نگور، شھرک و سامی، بلیدہ اور زمران سے نقل مکانی کرکے بہت سے لوگ تربت شہر میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں کی غیریقینی صورت حال نے لوگوں کی زندگی کو گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران شدید متاثر کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علاقہ مکین زندگی کی بہتر سہولت کی خاطر نقل مکانی کرکے گوادر اور تربت جیسے شہروں میں آ کر بس گئے۔  

انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ای۔ سی۔ راس نے 1864 میں یہاں اپنی آمد کے بعد لکھا کہ "کیچ کی آبادی دس ہزار اور تربت کی آبادی تقریباً پندرہ سو ہے"۔ 

جب 2017 میں کیچ میں مردم شماری ہوئی تو 157 سال گزرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ضلع کیچ کی آبادی نو لاکھ نو ہزار ایک سو سولہ (909116) تک پہنچ گئی ہے جب کہ تربت شہر کی آبادی دو لاکھ تیرہ ہزار پانچ سو پچپن (213555) قرار دی گئی ہے۔ یہ آبادی کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ شاید یہ درست نہ ہوں۔ لیکن جب شہر میں لوگوں کے رش اور بھیڑ کو دیکھا جائے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب شہر بڑھ گیا ہے۔ آبادی کی تناسب سے کوئٹہ کے بعد کیچ بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر بھی بن گیا ہے۔

جب کیچ اور نواح پر گچکیوں کی حکم رانی رہی تھی تو کہتے ہیں کہ کیچ کی سرحدیں مشرق میں شھرک، مغرب میں ھوت آباد اور انجیر کاریزات، جنوب میں بالائی گھنہ جو اب ماشاءاللہ ہوٹل کے نام سے جانا جاتا ہے اور شمال میں بڑی پہاڑی جسے کیچ کے لوگ بلیدہ بند اور بلیدہ کے لوگ کیچ بند کے نام سے پکارتے ہیں، یہاں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ تربت بازار کے بارے میں یہی گمان کیا جاتا ہے کہ جہاں تربت کا قلعہ موجود ہے، پہلے یہ تربت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اور گردونواح میں جو آبادی واقع تھی، اُن کے اپنے اپنے نام تھے۔ 

ہم قدیر کی گاڑی میں تربت شہر سے نکل کر گوگدان کے مغربی طرف سے ڈی بلوچ روڈ سے پہلے مشرق میں ایک اونچی زمین پر آ گئے جہاں ایک موبائل ٹاور بھی نصب ہے۔ اِس مقام پر روڈ کے شمال کی طرف ایک قدیم قبرستان موجود ہے۔ قدیر نے مجھے بتایا کہ اس جگہ کو "جدگال" کہتے ہیں۔ جدگال بلوچوں کا ایک قبیلہ ہے اور یہ جگہ جدگال کے نام سے مشہور ہے۔ قبروں کو دیکھنے کے بعد یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ قبریں بہت پرانی ہیں۔ ایسی قبریں میں نے دشت اور کلانچ میں بھی بہت دیکھی ہیں جن کی درست تاریخ معلوم نہیں ہو سکی۔ لیکن جب آرکیالوجسٹس نے مکران کے آثارِ قدیمہ کا معائنہ کیا تھا تو انہوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ایسی قبریں جہاں بھی ہیں یہ "زَنگیان دَور" کی ہیں۔ آرکیالوجسٹس کا کہنا ہے کہ "زَنگیان دَور" دو ہزار یا تین ہزار سال قبل مسیح کا دور ہے۔ 

اِس قبرستان میں تین سے چار قبروں کے سرہانے قبلہ رخ تھے اور باقی قبروں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف تھا۔ اِس قبرستان کے علاوہ مغربی روڈ کے جنوب کی طرف واقع قبرستان میں بھی ایسی قبریں موجود ہیں جن کی سمت مغرب اور مشرق کی طرف تھی جس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ قبریں قبل اسلام کی ہیں۔ اِس لیے ماہرین آثارِ قدیمہ نے ایسی قبروں کی تاریخ بہت پرانی قرار دی ہے۔ ویسے بلوچوں کی چار سو اور پانچ سو سال پرانی قبروں کو دیکھا جائے وہ بھی اسی طرح کے پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ تاہم ہر قبرستان پہ الگ الگ طورپر تحقیق کی ضرورت ہے۔ 

یہ جگہ جو جدگال کے نام سے مشہور ہے، ایک روایت کے مطابق اس جگہ پر تین یا چار سو سال قبل جدگال قبیلہ اور رند قبیلہ کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ جس کے بعد جدگال یہاں سے نقل مکانی کرکے باھو دشتیاری چلے گئے۔ اِس بنا پر یہ جگہ جدگال سے منسوب ہو گئی۔ یہاں رندوں کی بہت بڑی آبادی ہوا کرتی تھی۔ کھڈان کے کہدایان کے پردادا کہدہ غلام شاہ کا مقبرہ بھی یہیں موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے پردادا زگری فرقہ کے لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں اور وہ یہاں خان کے لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے یہ جگہ سالوں سے قدیم آبادی رہی تھی۔  

جَدگال سے مغرب کی طرف ایک وسیع زمین بھی تھی جو "پراھیں توک" کے نام سے منسوب تھی۔ اس جگہ پر آج کل ڈی بلوچ کمپنی روڈ اور ایف سی کیمپ واقع ہیں۔ ایک زمانہ میں پراھیں توک میں پانی ذخیرہ کرنے والا بہت بڑا بند ہوا کرتا تھا۔ جنوب کی طرف پہاڑوں کا سارا پانی اِسی بند میں جمع ہو جاتا۔ یہ بند سَنگُر قبیلہ کے لوگوں نے تعمیر کیا تھا جو یہاں کاشت کاری کرتے تھے۔ پراھیں توک وہی جگہ ہے جہاں آج ڈی بلوچ روڈ گزرتا ہے۔ اب یہ جگہ ڈی بلوچ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی شکر ہے کہ بلوچ کے نام پر ہے، اِس پر کوئی بیرونی چھاپ نہیں لگی ہے۔ پراھیں توک اور ڈی بلوچ کے مغرب کی طرف "سرگوپءِ ڈنّ" موجود ہے۔ یہ جگہ "گزّیں دَر" ندی کے شمال میں پڑتی ہے۔ یہ بھی بہت پرانی اور قدیم جگہ ہے۔ یہاں پر ایک زمانہ میں نُک ھُشک کی ندی مشہور ہوا کرتی تھی۔ دیہات کی سب زمینیں نُک ھُشک کی ندی سیراب ہوتی تھیں۔ 

"سرگوپ ءِ ڈن"کے بارے میں بہت سی باتیں منسوب کی گئی ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں کے مطابق جب پرانے زمانہ میں کیچ کے لوگ کھجور کی فصل کے سیزن میں نخلستانوں کا رخ کرتے تھے تو وہ سارا سیزن بیوی اور بچوں سمیت وہاں گزارتے۔ جب سیزن ختم ہو جاتا تو واپسی پر جاتے ہوئے سرگوپ ءِ ڈن  پر رکتے۔ یہاں بچے اور عورتیں اپنا بناؤ سنگار کرتیں اور پھر تربت چلے جاتے تھے کیوں کہ تربت پہنچتے ہی لوگ بھی فوراً ان کے دیدار کے لیے پہنچتے۔ لیکن اب بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ نہ "جدگال" باقی رہ گیا ہے اور نہ پراھیں توک" اور "سرگوپ ءِ ڈنّ"۔ بلوچ کے تمام آثار اور نشانیاں موسم کی طرح تیزی سے تبدیلی کی زَد میں ہیں۔ 

(جاری ہے) 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی