{ads}





عابد میر

قدوس بزنجو کے خلاف خود ان کے پارٹی ارکان نے جام کمال کی سربراہی میں آج صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی، جو پہلے ہی مرحلے میں مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری نہ ہونے پر ناکام ہو گئی۔ بلوچستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عدم اعتماد کی کوئی تحریک اپنے پہلے مرحلے میں ہی ناکام ہو گئی ہو۔
ایسا کیوں ہوا؟
اس کی دو چار بنیادی وجوہات ہیں؛
1۔ یوں لگتا تھا جیسے عدم اعتماد بے روزگار ہونے والے چند ایم پی ایز نے جلدی میں بنا دی اور جام کمال کو آگے کر دیا۔ جام صاحب خود کیوں کہ قدوس بزنجو کے ہاتھوں ستائے ہوئے تھے، سو جھٹ سے قیادت سنبھال لی۔ مگر اس دوران کسی اتحادی جماعت سے رابطہ کیا نہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا۔ اپوزیشن میں عددی برتری رکھنے والی جمعیت اور بی این پی سے عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد رابطے کیے گئے، جو ظاہر ہے ناکام ہی ہونے تھے۔
2۔ باپ کی صوبائی قیادت کا خیال تھا کہ مرکز میں پی ڈی ایم کی سپورٹ پر وہاں سے لازمی حمایت انہیں ملے گی۔ جب کہ ایسا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ زبانی کلامی شاید کوئی بات ہوئی ہو۔ مگر اب بظاہر جب کہ مرکزی حکومت بھی زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی، ایسے میں صوبے میں ایک بار پھر تبدیلی کسی کو وارا نہیں کھاتی، سو شاید اسی لیے کسی مرکزی جماعت نے اسے سنجیدہ نہیں لیا۔
3۔ یہ تحریک اگر جام کمال کی قیادت میں نہ ہوتی تو شاید اس کا انجام مختلف ہوتا۔ جام کمال خود ابھی چھ مہینے پہلے اپنے انہی اراکین، جن کے ساتھ اب وہ کھڑے ہیں، کے ہاتھوں عدم اعتماد کا شکار ہو کر وزراتِ اعلیٰ گنوا چکے۔ جس کی سربراہی قدوس بزنجو نے کی۔ یوں اسے نہایت بھونڈے قسم کی انتقامی کارروائی سمجھا گیا، اور دوم جام کمال نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران اپوزیشن کا مکمل طور پر کھڈے لائن لگائے رکھا۔ وہ مکمل طور پر مطلق العنان وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔ ایسے میں کوئی بھی جماعت ان کی حمایت کو تیار نہیں ہوئی۔
4۔ نیوٹرلز نے یہاں بھی شاید نیٹورل رہنے کا فیصلہ کیا۔ کسی جماعت کو کہیں سے کوئی گرین یا ریڈ سگنل نہیں ملا۔ جب کہ اس وقت اپوزیشن جماعتیں ہر لحاظ سے کمفرٹ ایبل ہیں۔ اس لیے آپ حکومت پر تنقید تو چھوڑیں، بنیادی مسائل پر بھی ایوان سے کوئی آواز نہیں سنیں گے۔ لندن یاترائیں ہو رہی ہیں، پی ایس ڈی پی مرضی کی مل رہی ہے، بجٹ ان کی مرضی کا بن رہا ہے۔ یوں حکومت و اپوزیشن اس وقت ایک پیج پر ہیں۔
5۔ البتہ اختر مینگل نے آج جام کمال پہ جس طرح طعنے بازی کی ہے، اس کے بعد وہ قدوس بزنجو کی وزارت کے گناہ میں برابر کے حصہ دار سمجھے جائیں گے۔ ان کے ایم پی ایز اس وقت صوبائی وزیر کا درجہ رکھتے ہیں اور تمام مراعات سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی حالیہ لہر سے متعلق ان کی پارٹی مکمل طور پر خاموش رہی ہے، اور ظاہر ہے اس خاموشی کی ایک "قیمت" ہے۔
بچی کچھی سیاسی قیادت بلدیاتی انتخابات میں اپنا حصہ بٹورنے میں منہمک ہے۔ صوبے کے عوام کل بھی لاوارث تھے، آج بھی لاوارث ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی