{ads}



شکور بلوچ

ساتھیو!

 جامعہ بلوچستان ہمارا مادرِ علمی ہے۔ ادارے میں بلوچ، پشتون، ہزارہ، سندھی سمیت بلوچستان میں بسنے والی تمام اقوام سے تعلق رکھنے والے طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔ صوبے کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہونے کی وجہ سے یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

دوستوں! جامعہ میں بی ایس او سمیت مختلف طلبا تنظیمیں سرگرم ہیں۔ جو طلبا کے حقوق کی پاس داری کرتے ہوئے ادارے میں جمہوری روایات کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ طلبا کی جبری گم شدگی کے واقعات ہوں، فیسز میں بے جا اضافہ، ہاسٹل کے مسائل ہوں یا دیگر مسئلے طلبا تنظیموں نے ہمیشہ ان مسائل پہ آواز اٹھائی ہے اور طلبا حقوق کی حفاظت کی ہے۔

ان طلبا تنظیموں کے آپس میں سیاسی و نظریاتی اختلافات ہیں۔ لیکن اکثر جہاں طلبا کے مشترکہ مفادات کی بات ہوتی ہے تو آپ کو تمام طلبا تنظیمیں بلا تفریق رنگ و نسل، قوم، ذات و مسلک کے ایک پیج پر نظر آئیں گی۔ یہی بات طلبا دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور وہ وقتاً فوقتاً کوشش کرتے ہیں کہ یہ تنظیمیں آپس میں لڑ پڑیں تاکہ طلبا طاقت کم زور ہو۔

ان جھگڑوں میں بعض اوقات کچھ تنظیموں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جو بہ ظاہر تو طلبا رہ نما ہوتے ہیں لیکن  وہ دراصل نادیدہ قوتوں کے کٹھ پتلی ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں جامعہ میں جس قسم کا ناخوش گوار واقعہ پیش آیا، یہ بھی اسی عمل کا تسلسل تھا۔ بی ایس او کے دوست نادیدہ قوتوں کے ارادوں سے بہ خوبی واقف ہیں اسی لیے اپنے ساتھیوں پہ شدید تشدد اور ایک ساتھی کے آئی سی یو پہنچنے کے باوجود انتہائی سنجیدگی سے معاملے کو ہینڈل کیا اور اسے مزید بگڑنے و خون خرابہ ہونے سے بچایا۔ کچھ ویڈیوز میں اگر آپ کو بی ایس او کے دوستوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے دکھے بھی تو وہ انھوں نے اپنے سیلف ڈیفنس میں اٹھائے تھے۔ اب ظاہر ہے اگر سامنے سے لوگ اسلحوں اور ڈنڈوں سے لیس ہو کر آپ کو مارنے آئیں، فائرنگ کریں تو ہم انھیں پھولوں کے ہار تو نہیں پہنا سکتے۔

کچھ عناصر کی جانب سے اس جھگڑے کو بلوچ و پشتون تنازعے کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن بی ایس او آپ سب کو باور کرانا چاہتی ہے کہ ہمارا مسئلہ صرف چند مخصوص افراد کے ساتھ ہے جو نادیدہ قوتوں کے پے رول پہ جامعہ میں افراتفری اور نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔ پشتون سمیت ادارے میں زیرِ تعلیم تمام اقوام کے طالب علم ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں اور ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں۔

ساتھیوں! ہمیں علم ہے کہ جامعہ کا تعلیمی نظام پچھلے کچھ عرصے سے شدید متاثر رہا ہے اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ طلبا و طالبات کے تعلیمی سال میں مزید خلل پڑے۔ جھگڑے کے بعد جامعہ انتظامیہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے واسطے ہاسٹل سمیت جامعہ کو غیرمعینہ مدت تک بند کرانا چاہتے تھے۔ لیکن بی ایس او نے انھیں ایسا کرنے نہیں دیا اور اپنے ساتھیوں پہ شدید تشدد ہونے کے باوجود ایک ہفتے کے لیے صلح بندی کی اور انتظامیہ کو باور کرایا کہ ہم جامعہ کے اندر مزید جھگڑا نہیں کریں گے۔

ساتھیوں! آپ سب تحمل رکھیں، اپنی پڑھائی پہ توجہ دیں اور ہمارے ساتھ مل کر ان تمام طلبا دشمن قوتوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیں جو طلبا کے اتحاد کو تار تار کر کے ادارے میں قومیتوں اور زبانوں کی بنیاد پہ نفرتیں پھیلانا چاہتے ہیں۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی