{ads}




رضوان بلوچ
جنرل سیکرٹری، بی ایس او، اوتھل زون

آج کے ترقی یافتہ دور میں ہم جب ایک نظر معدنی وسائل سے مالا مال اپنے وطن بلوچستان پر ڈالتے ہیں تو ہمیں صرف تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ یہاں عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، سب ہی کے سب یکساں ہیں۔ نیز ہم ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں جو خون سے بھری دی گئی ہے۔ جہاں بھی دیکھو آپ کو بھوک، پیاس، خون و آنسو ہی ملیں گے۔ 

بلوچستان ایک لہولہان دریا بن گیا ہے، اس دریا میں خون کے علاوہ  درد اور غصہ ہی نظر آئے گا۔ ایک ایسا درد جو بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا غصہ جو لاوے کی طرح ہے۔ یہ غصہ ایک ایسے طوفان کی شکل اختیار کرے گا کہ شاید ہم جس کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ طوفان ہمیشہ خاموشی سے آتا ہے اور وہ جس نیت سے آتا ہے، جس کام سے آتا ہے، اپنا کام مکمل کر کے ہی رخصت ہوتا ہے۔ اگر ہم بلوچستان کی صورت حال پر غور کریں تو ہمیں یہی نظر آ رہا ہے کہ بلوچستان انتہائی کرب کے عالم میں جی رہا ہے اور جیتا رہا ہے اور یہاں کے فرزند کس طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔

بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں کے باسیوں سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں۔ یہاں کے لوگ اگر پیاس سے مر رہے ہیں تو ان سیاست دانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر یہاں کے جنگل میں آگ لگی ہے تو ان حکم رانوں کا کچھ نہیں جاتا ہے۔ اس طرح بلوچستان کے ہر فرد کے دل میں آگ لگی ہے اور یہ آگ ایک لاوا بن رہی ہے۔ یہ دلوں کی آگ ہے۔ اگر یہ لاوا بن گئی تو یہاں بہت سے گھر تباہ ہو جائیں گے۔

بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں آپ کو قدرت کی ہر نعمت مل جائے گی۔ یہاں قدرتی چیزیں تو موجود ہیں۔ لیکن یہاں کے لوگوں میں وہ مہر و محبت ہے، وہ مہمان نوازی ہے جو باقی جگہوں پر بہت کم نظر آتی ہیں۔ بلوچ گھروں میں اتنی عزت مرد کو نہیں دی جاتی جتنی عورت کو ملتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک غیربلوچ عورت کی عزت کی خاطر نواب اکبر خان بگٹی نے خود کو قربان کر دیا۔

یہاں کے باسیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر ایک ایسی راہ پر چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ جس راہ میں بلوچستان کے لوگ اور بلوچ نہیں جانا چاہتے ہیں۔ مگر جب کشتیاں خون سے بھر جاتی ہیں اور دریا خون و آنسو میں تبدیل ہو جاتے ہیں، حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً ایسی راہ پر نکل جاتے ہیں۔ 

بلوچستان میں لوگ سچ بولنے سے ڈرتے تھے کیوں کہ یہاں کے لوگ جب حق کی بات کرتے اور سچ بولتے تو قتل یا لاپتہ کر دیے جاتے تھے۔ بیشتر نوجوان اسی ڈر کا شکار تھے اور اب جو کہ حالات نظر آ رہے، اس میں یہ ڈر آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ جو لوگ کبھی بھی بلوچ کے نہیں ہوئے، اب بلوچ سمجھ گئے کہ وہ آگے بھی ہمارے نہیں ہوں گے۔ 

بلوچسان کے نام نہاد حکم ران و سیاست دان صرف اپنے مفادات کے پیچے بھاگ رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے پیٹ کو بھرنے کی کوشش میں ہے۔ ان حکم رانوں کو بلوچستان کے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کو یہاں کے لوگوں سے ذرہ برابر بھی مہر و محبت یا ہم دردی نہیں ہے۔ بلوچستان میں اب نواب و سردار نہیں رہے ہیں، وہ پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے جو بلوچوں کے محافظ تھے۔ لیکن اب سب اپنے قوم و وطن کے خلاف ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کو بس بلوچستان کی معدنیات سے پیار ہے اور ان کو بیچ کر ختم کر رہے ہیں۔ 

جس طرح لوگوں کے سامنے بلوچستان کو پیش کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، اصل بلوچستان اس سے بالکل الگ ہے۔ بلوچستان کو روشنی کی طرف نہیں بلکہ تاریکی کی طرف گام زن کیا جا رہا ہے اور یہ حقیقت اب بلوچستان کے باہر بھی لوگوں کو پتہ چل رہی ہے۔ پہلے تو بس بلوچستان کے لوگوں کو اس کے بارے میں علم تھا لیکن اب بلوچستان کے حقیقی منظرنامے سے پوری دنیا کے عوام آگاہ ہو رہے ہیں۔ امید ہے اسی طرح لوگ حقیقت سے آگاہ ہوں گے اور بلوچستان کے عوام کے لیے آواز اٹھائیں گے، تاکہ یہاں کے لوگوں کے دکھ درد کم ہوں سکیں۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی