{ads}

جاوید حیات

پورٹ سنگاپور اتھارٹی کے زمانے میں بھی جب گندم کے جہاز گوادر پورٹ آتے تھے اور فش ہاربر روڈ پر قطار میں گندم سے لدے ٹرالے گزرتے تھے تو بکریوں اور کبوتروں کے ساتھ دیسی مرغیاں اپنے چوزوں سمیت سڑک کنارے دانہ چگتی بہت خوب صورت دکھتی تھیں۔ ان بےزبان پرندوں اور جانوروں کی پیاس کو بجھتا دیکھ کر میری آنکھوں کے دریچوں میں سبز جھرنے بہنے لگتے۔

صبح و شام گندم کی بڑی گاڑیاں گزرنے سے کوسٹل ہائی وے پہ گندم کے اتنے دانے بکھرے پڑے تھے کہ آس پاس کے کھیتوں سے شانتل اور چگوگ پرندے بھی سڑک کنارے منڈلانے لگے۔

گوادر پورٹ کے برتھ پر گندم کا پہلا جہاز 20 دسمبر 2008ء کو لنگرانداز ہوا تھا۔ پہاڑ جتنا بڑا سرخ رنگ کے POS GLORY نامی اس جہاز میں کل 72,700 میٹرک ٹن گندم موجود تھی۔_ 

ہانگ کانگ کا یہ پرچم بردار جہاز روس سے گندم لے کر آیا تھا، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے ایک اور جہاز کے ذریعے سے 225 میٹر طویل اس دیوقامت جہاز سے ہزاروں میٹرک ٹن گندم چوسنے والی مشین سے نکال کر پھر گوادر پورٹ پر اس کی برتھنگ اور ہینڈلنگ کو یقینی بنایا گیا، ٹھیک دس دن بعد 30 دسمبر کو یہ جہاز واپس روانہ ہوا۔

پندرہ سال بعد اس برس دیمی زر ایکسپریس وے سے بھی بڑی تعداد میں گندم کے ٹرالے گزرنے لگے، میں اس دل کش منظر کو کھوجنے لگا جو سالوں پہلے ماضی کے جھروکوں میں کہیں کھو گیا تھا۔

میری آنکھوں کے دریچوں میں بہتا وہ سبز جھرنا صحرا کے درخت جیسا سوکھ چکا تھا۔

میری سوچوں کی زرد پگڈنڈی پہ بکریاں ممیانے لگیں، چوزے چہکنے لگے، کبوتر غٹرغوں کرتے اڑتے سمے پروں کو پھٹکتے رہے اور جھونپڑوں سے مرغے بانگ دینا شروع ہو گئے۔

اس سڑک سے گاڑیوں کو تو آنے جانے میں اچھی سہولت مل گئی لیکن بکریاں اور پرندے دانہ چگنے سے رہ گئے۔

جمعرات 4 مئی 2023ء کی دوپہر فش ہاربر ہاکشن ہال میں جب میں اپنے مہرباں دوست کے بی سے ملا تو وہ اپنے لیے صارم مچھلی لالہ کو کٹائی کے لیے دے چکا تھا، ہم دونوں نے اس خوش گوار ملاقات کے دوران حالیہ بارشوں کے بعد کوہِ باتیل کی وادی میں پکنک منانے کے متعلق پروگرام بھی بنایا۔

لالہ سے مچھلی لے کر کے وہ مجھ سے مخاطب ہوا، "میں گھر کی طرف جا رہا ہوں، تمھیں کمپلیکس چھوڑ دوں گا"۔"

میں نے سبزیاں اور باقی سارا سامان گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ دیا اور خود اس کی بغل والی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ آکشن ہال سے نکلتے ہی اس نے گاڑی دیمی زر ایکسپریس وے کی طرف موڑتے ہوئے کہا، اس راستے سے چلتے ہیں، چھ سات منٹ میں کمپلیکس پہنچ جائیں گے۔

گاڑی کے شیشوں میں اس منظر کا حسن اپنے جلوے یوں بکھیر رہا تھا جیسے بارشوں کے بعد پرندے اپنے گھونسلوں سے اڑتے ہوئے دیمی زر ایکسپریس وے پر قطار میں گندم سے لدی گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔

میں نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا، "دیکھو تو یہ سڑک فش ہاربر روڈ سے کتنی مختلف ہے، یہاں گندم سے لدی گاڑیاں تو گزرتی ہیں لیکن نہ بکریوں کو چارہ ملتا ہے اور نہ ماسی سکینہ کی مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ یہاں دانہ چگتے ٹہلتی دکھتی ہے"۔

گاڑی میں بیٹھے اپنے دوست کی یہ بات سن کر میری آنکھیں خوش گوار احساس کے ساتھ چمک اٹھیں۔

"پتا ہے گزروان اور بلوچ وارڈ کے درمیان دیمی زر ایکسپریس وے پر بھی کبوتر دانہ چگتے نظر آتے ہیں لیکن اس دل فریب منطر کا بوسہ لینے سے پہلے میں تمھیں خون اور درد کے رنگوں سے لت پت اسی سڑک پر کچلے گئے کتوں کے چند بوسیدہ پورٹریٹ دکھاؤں گا جیسے ان کے مردہ جسموں کی نمائش ہو رہی ہو اور ہر دیکھنے والا شخص نہایت تیزی سے انھیں اپنی گاڑی کے ٹائروں کے نیچے کچلتے ہوئے گزر جاتا ہے"۔

اس نے گاڑی دھیمے سے ڈرائیو کی اور مشرق کی طرف مجھے انگلی کے اشارے سے دکھایا، یہ منظر دیکھ کر مجھے پت جھڑ کے درخت جیسا اداس کر گیا اور مدتوں سے بچھڑے مجھے اپنے ساتھی "گُلڑ" کی یاد آ گئی، اسے کسی گاڑی نے نہیں کچلا، وہ طبعی موت مرا تھا لیکن میں اس کی جدائی میں ہفتوں اداس رہا، ان دنوں ریڈیو کے بغیر میرے لیے سانس لینا مشکل تھا مگر اس کی جدائی کا صدمہ اتنا بڑا تھا میں ریڈیو کے مائیک پہ پروگرام بھی نہیں کر پایا۔

گاڑی آگے چلتی رہی، ہم مرے ہوئے زرد کتوں کا سوگ مناتے رہے۔

خیالوں اور سوچوں کے کینوس پر درد کی پینسل مختلف اسکیچز بنانے لگی۔

" مجھے لگتا ہے اس سڑک پر لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے کتوں کے ساتھ یہ حادثات پیش آ رہے ہیں، اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجنیئرز کا کہنا ہے کہ ہائی وے اور موٹر وے پر بتیاں نہیں لگتیں مگر یہ سڑک شہری آبادی کے بہت نزدیک بنائی گئی ہے، دیمی زر کے کنارے آباد بستیوں کے قریب اس سڑک پہ لائٹ کا انتظام ضرور کرنا چاہیے۔ کتوں کے کچلنے کی دوسری بڑی وجہ گاڑیوں کی تیز رفتاری بھی ہے۔ اس سڑک پر مال بردار اور عام گاڑیوں کی باقاعدہ ایک اسپیڈ مقرر کی جائے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے کے ساتھ اس کی سزا بھی ملے۔ ہماری بستیوں کے کتے خوش نصیب ہیں، دیکھو تو ان بے چاروں کی لاشیں اٹھانیں بلدیہ کا ٹریکٹر بھی نہیں آتا"!

ہم راستے تو بدل سکتے ہیں مگر نیچر کو نہیں بدل سکتے اور یہ قدرت کا قانون ہے جو ہزاروں سال سے چلتا آ رہا ہے، گرمیوں میں قریبی بستیوں میں بسنے والے کتے سمندر کے پانی میں گھنٹوں وقت گزارتے ہیں اور کنارے پہ انھیں مری سڑی مچھلیاں بھی مل جاتی ہیں جس سے ان کی بھوک مٹ جاتی ہے۔ اونچی دیواروں کی وجہ سے وہ سڑک پھلانگنے سے پہلے گندم کے ٹرک کے نیچے آ جاتے ہیں۔"

گاڑی پھر دھیمے سے چل پڑی اور کے بی نے مغرب کی جانب ہاتھ کے اشارے سے مجھے کبوتروں کا وہ جُھنڈ دکھایا جو دیمی زر ایکسپریس وے پہ ٹرکوں سے لدی بوریوں سے گرے گندم کے دانے چگ رہے تھے۔

اس دل فریب منظر کو اتنے قریب سے دیکھ کر میری پلکوں پہ جیسے تتلیاں بوسے لینے لگیں اور میں میش مرگ پرندے کے جیسا آسمان سے آگے اڑان بھرنے لگا۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی