{ads}

 انور بلوچ

قوموں کی ترقی کا انحصار قومی تعلیمی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ یہ تعلیمی ڈھانچہ دراصل سیاسی و معاشی ضروریات کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے جس کی بنیادوں میں ترقی کرنا ہی اولین مقصد ہوتا ہے۔ مغربی اقوام نئی ایجادات اپنے تعلیمی ڈھانچے کی بنیاد پر کر رہی ہیں اور گزشتہ دو سو سال سے وہ علوم و فنون میں راج کر رہی ہیں۔

پاکستان کا قومی تعلیمی نظام الجھاؤ، کنفیوژن اور تضادات کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم علم پر مبنی معیشت کو خواب سے آگے بڑھا ہی نہیں سکے۔ قومی نظام کے ساتھ صوبائی سطح پر بھی تعلیمی ڈھانچہ ریت پر کھڑا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی پسماندگی کا تذکرہ نشریاتی اداروں اور سوشل میڈیا پر کیا جاتا ہے لیکن اس پسماندگی کی پُشت پر تعلیمی ضروریات کو پورا نہ کرنا بھی شامل ہے۔

میرا تعلق بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن سے ہے، میں یہاں‌ کے تعلیمی مسائل کی جڑوں سے واقف ہوں۔ صرف نصیرآباد ڈویژن کی ہی بات کر لیجیے تو آبادی کے تناسب سے یہاں دو میڈیکل کالجوں کا قیام ناگزیر ہے۔ 

پورے پاکستان کو دیکھا جائے تو چند شہروں کے علاوہ باقی سب تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور ان بدنصیبوں میں بلوچستان کو اولیت حاصل ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تو ہے لیکن یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں آبادی کم ہے۔ اس کم آبادی کی وجہ سے ہر شعبے کے بجٹ میں بلوچستان کو باقی صوبوں کی نسبت تعلیمی بجٹ بھی کم رکھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ تعلیم جیسی نعمت کو مزید مضبوط بنانے کے بجائے بجٹ یا پھر کوئی اور منطق پیش کرکے پیچھے چھوڑا جا رہا ہے۔

پورے بلوچستان میں 2 سے 3 انجینئرنگ یونیورسٹیاں ہیں اور اتنے ہی میڈیکل کالجز ہیں۔ میرا تعلق بلوچستان کے اس بد نصیب علاقے سے ہے جہاں تعلیم تو دور کی بات ہے، زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں۔ صحت کے حوالے سے گدان نما سی بلڈنگ کھڑی کر کے بھوتار کے یار دوستوں کے لیے ریسٹ ہاؤس بنا دیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر وہ گدان نما بلڈنگ (اسپتال) میں ڈاکٹر صاحبان غلطی سے بھی ڈیوٹی کرنے آئیں تو سوائے ریفر پرچیاں کاٹنے کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو سندھ کے شہر لاڑکانہ تک مریض کے ساتھ تن درست انسان بھی موت کو گلے لگانے پہ مجبور ہوتا ہے۔ پانی جیسی نعمت کے لیے لوگ ترستے ہیں۔ مجبوراً گندے تالابوں سے انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔ رہی سہی کسر حالیہ سیلاب نے پورا کر دی۔ عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا سب سے پسماندہ ریجن ہے اور بد قسمتی سے اس ڈویژن کو بلوچستان اسمبلی سے لے کر وفاق تک رسائی بھی حاصل ہے لیکن یہاں کے موجودہ اور سابق وزرا نے عوام کو ہاؤ سائیں ہاؤ سائیں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ نصیرآباد ڈویژن کولپور سے شروع ہو کر سندھ کے سرحدی علاقوں پر ختم ہوتا ہے جس میں بولان، جھل مگسی، جعفرآباد، اوستا محمد، نصیرآباد، صحبت پور اور کچھی کے علاقے شامل ہیں۔

یہ بلوچستان کا واحد بڑے پیمانے پر میدانی علاقہ ہے جسے گرین بیلٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ نصیرآباد و جعفرآباد، صحبت پور اور جھل مگسی میں گندم، چاول، چنا اور بہت سی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ ایگریکلچر کے حوالے سے سب سے زیادہ کاشت کاری انہی علاقوں میں ہوتی ہے۔ لیکن افسوس آج تک فل فیلج ایگریکلچر کالج و یونیورسٹی تک یہاں کے باسیوں کو میسر نہیں۔ بھلا ہو چند نیک لوگوں کا جن کی محنت و کوششوں سے اب جا کر لسبیلہ یونیورسٹی کا کیمپس کچھ عرصے سے یہاں فعال ہے۔

گزشتہ کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر طلبا و دیگر عوامی حلقوں کی جانب سے یونیورسٹی آف نصیرآباد کا مطالبہ زور و شور سے جاری ہے۔ اس مطالبے پہ فوری عمل درآمد وقت کی ضرورت ہے۔

نصیرآباد وہ واحد ڈویژن ہے جس میں دو ڈگری کالجوں کا نام سننے میں آتا ہے، وہ بھی نام کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ گرلز کالجز کو آج تک فائلوں اور اخباری بیانات کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔ اس کی واضح مثال ضلع اوستا محمد کا کالج ہے جسے کئی شخصیات نے کریڈٹ کے چکر میں منتازع بنایا ہوا ہے۔ عوامی نمائندوں کی انہی حرکات کے پیشِ نظر آج تک اس کی فائل داخلِ دفتر ہے۔

 البتہ پی پی پی کے دورِ حکومت میں اوستا محمد کے علاقے کیٹل فارم میں بیوٹمز یونیورسٹی کی برانچ کا افتتاح کیا گیا تھا اورپھر اس ڈرامے کی باقی قسط آنا بند ہو گئیں۔.

ایسے ہی کومسٹیٹس یونیورسٹی کی برانچ بھی کھلنے والی تھی لیکن پیسے ہضم کرکے اس فائل کو بھی شیلف میں بند کردیا گیا ایک کیڈٹ کالج بنا کر اس پر شاہی خاندان کی حکومت نافذ کر دی گئی۔ اب صرف بلڈنگ اور نام کے علاوہ وہاں بھی کچھ بھی نہیں ۔

ایسے بہت سے تعلیمی (اسکول) ادارے بند ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے اداروں نے ابھی تک اخباری بیانات پر ہی اکتفا کر رکھا ہے۔ نصیرآباد وہ واحد ڈویژن ہے جہاں یونیورسٹی کا قیام اب تک ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے اور حاکمِ وقت صرف اپنے ذاتی معاملات میں سے وقت نکال کر دعوتوں، تعزیتوں اور شادی بیاہ میں جا کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔

اوچ پاور پلانٹ سے بجلی پیدا کر کے باقی صوبوں تک لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم لوگوں کے وزرا کرپٹ ہونے کے ساتھ نالائق بھی ہیں۔ ساحل و وسائل کی بات کرنے والے بھی ان علاقوں کو ایسے نظرانداز کرتے ہیں جیسے یہاں بسنے والے مسلمانوں کے دشمن طائفے سے تعلق رکھتے ہوں۔ 

ڈیرہ اللہ یار کو اوستہ محمد سے ملانے والی شاہراہ 1998 سے زیر تعمیر ہے لیکن افسوس کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ اب جا کر کچھ آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اس ڈویژن کو وفاق میں اہم منصبی کا اعزاز بھی حاصل ہے لیکن نجانے کیا دشمنی ہے ان لوگوں کو عوام سے کہ سوائے شاہی خاندان کے باقی کمیونٹی کو کچھ نہیں ملتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ ایک سرکاری خرچہ کر کے یا کسی کی دعوت قبول فرما کر یہاں کا ایک چکر لگائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی