{ads}

یوسف بلوچ

آٹھ اپریل کو اہلیانِ ملیر اور سول سوسائٹی کی جانب سے ملیر ایکسپریس وے اور ایجوکیشنل سٹی کے نام پر  کے زرعی زمینوں پر قبضہ اور صدیوں سے آباد گوٹھوں کے رہائشیوں کو بے دخل کرنے کے خلاف ملیر ندی کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے میں انڈیجنئس رائٹس الائنس اور عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔ ان کا مؤقف ہے کہ ملیر کی سرسبز زرعی زمینوں کو کمرشل پروجیکٹ نہ بنایا جائے۔

جب کہ دوسری طرف 15 اپریل کو سندھ ماحولیاتی ٹربیونل نے ملیر زرعی زمینوں کے متعلق کیس میں سندھ سرکار کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کیس میں شہریوں نے ٹریبونل سے اپیل کی تھی کہ زرعی زمینوں پر قبضہ بند کیا جائے تاکہ ماحولیاتی مسائل پیدا نہ ہوں۔ دوسری جانب اہلیانِ ملیر نے اس کیس کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔

رواں سال کی 27 اپریل کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے ملیر انڈیجئنس رائٹس الائنس کی درخواست پر نظرثانی کرکے ملیر ایکسپریس وے منصوبے پر سندھ سرکار کو فنڈز نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ملیر ایکسپریس وے سے زرعی زمینیں کیسے متاثر ہو رہی ہیں؟

اسلم بلوچ کا تعلق حاجی عیسیٰ گوٹھ ملیر سے ہے۔ ان کی یہ تیسری نسل ہے جو یہاں آباد ہے۔ اس سے پہلے ان کے آباؤ اجداد تقریباً تین سو سالوں سے یہاں رہ چکے ہیں۔ ان کی دس اکیڑ زرعی زمینیں ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ میں متاثر ہیں۔

انھوں نے حال حوال سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "میری زرعی زمینوں کو ملیر ایکسپریس وے نام پر بیچ میں آدھا تقسیم کیا گیا ہے، ایکسپریس وے کی تکمیل کے بعد یہ زمینیں کسی کام کی نہیں رہیں گی، کیوں کہ تقسیم کی وجہ سے ان زرعی زمینوں کو پانی نہیں دیا جا سکے گا اور بیچ میں ایکسپریس وے تعمیر کیا جائے گا اور یوں میری زمینیں بنجر ہو جائیں گی"۔

اسلم بلوچ نے بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے، ملیر ندی پہ بنایا جا رہا ہے جو ندی تین دریاؤں کے پانی کا مرکز ہے جس سے اہلیانِ ملیر کی پانی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔

ان کے مطابق اس پروجیکٹ سے تقریباً دو سو سے زائد زرعی زمینیں متاثر ہوں گی اور کم از کم 28 سے 30 ایسے گوٹھ متاثر ہوں گے جو صدیوں سے ملیر میں آباد ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ملیر کی  زرعی زمینوں کو پانی پائپ لانے کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ اگر ملیر ایکسپریس وے بن جائے گا تو پانی کا سارا سسٹم تباہ کردے گا۔

ان کے مطابق سرکاری مؤقف ہے کہ صرف 5 گوٹھ متاثر ہو رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہاں تقریباً تیس گوٹھ متاثر ہوں گے۔

 ملیر ایکسپریس وے سندھ سرکار کا منصوبہ ہے جو 38 کلومیٹر پر مشتمل ہے، اس کی چوڑائی سو میٹر ہے جب کہ ملیر میں یہ 12 کلومیٹر کا ایریا کور کرے گا۔

اس کے بنانے کا مقصد تو شہریوں کو سہولیات دینا ہے اور شہر کے ٹریفک کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت یہ بنایا جا رہا ہے لیکن اکرم بلوچ کے مطابق ملیر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کے فوائد صرف ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کو ہوں گے۔ اکرم بلوچ بتاتے ہیں دراصل یہ ان ہی کے لیے بن رہا ہے جس میں ہمارا نام یوں ہی شامل کیا جا رہا ہے۔ اس سے ڈی ایچ اے اور بحریہ کے رہائشی، کم وقت میں کراچی شہر پہنچیں گے۔

عظیم دہکان ملیر کے رہائشی ہیں اور ان کی زرعی زمینیں ملیر ایکسپریس سے متاثر ہیں۔ انھوں نے حال حوال کو بتایا "میری ڈھائی ایکڑ زرعی زمینوں پر انٹرچینج بنے گا، اگر یہ ایکسپریس وے کا کام جاری رہا تو میری زرعی زمینوں کے سنگم پہ بنائی گئی سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری بھی متاثر ہو گی"۔ ملیر میں ان کی چھ ایکڑ ایسی زمینیں متاثر ہو رہی ہیں جو ان کی ملکیت ہیں نیز ان کی سات ایکڑ لیز زمین بھی متاثر ہو گی۔

عظیم دہکان کے مطابق صوبائی سرکار نے ابھی تک مجھے نوٹس تک نہیں بھیجا ہے، معاوضہ اپنی جگہ سندھ سرکار نے بغیر سروے کیے ایک سیٹلائٹ نقشہ بنا رکھا ہے۔ ان کے مطابق سندھ سرکار نے رواں سال ایک ایسا قانون پاس کیا ہے جس میں یہ درج ہے کہ لیز زمینیں سرکار کی ملکیت ہوں گی۔

عظیم دہکان نے ہمیں بتایا، "سندھ سرکار کی جانب سے بنائے گئے ماسٹر پلان میں نوری آباد ملیر سے بلوچستان لسبیلہ کی سرحد تک سارا علاقہ ازسرِ نو تشکیل دیا جائے گا جس میں زرعی زمینوں کو ختم کر دیا جائے گا"۔

ہم اس کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے

رابطہ کرنے پر سماجی کارکن اور عوامی ورکرز پارٹی کراچی ڈویژن کے نائب صدر حفیظ بلوچ نے بتایا کہ "ملیر ایکسپریس وے ملیر ندی پہ بن رہا ہے جس کے دائیں جانب ملیر کی زرعی زمینیں ہیں، ایکسپریس وے کے نقشے پر کئی گوٹھ موجود ہیں جو اس سے متاثر ہوں گے بل کہ ختم ہوں گے، لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہیں"۔

وہ کہتے ہیں کہ "ملیر کی زرعی زمینیں ختم ہوں گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملیر ندی ختم ہو گی جس کا پانی ہم آج تک پی رہے ہیں۔ ملیر کی اپنی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی اور کراچی کو بڑے ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا"۔

حفیظ بلوچ نے مزید بتایا پہلے ڈالمیا سے ملیر شروع ہوتا تھا، اب ملیر کی حدود ملیر ہالٹ تک محدود ہو گئی ہیں۔

اس پروجیکٹ سے 30 گوٹھ براہِ راست متاثر ہوں گے اس کے علاوہ ساری گوٹھوں کے مابین قائم رشتہ داریاں بھی متاثر ہوں گی۔

 گزشتہ 75 سالوں سے مختلف کمرشل پروجیکٹ کے نام پر ملیر کی زرعی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے۔ جن میں سے کئی ایک شہریوں کو زمینوں کے بدلے جو معاوضہ دیا جاتا رہا ہے وہ بھی مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بحریہ اور ڈی ایچ کو ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ان کو تھانے میں لے کر دہشت گردی کا مقدمہ دائر کرتے، یوں شہریوں کو مجبوراً اپنی زمینوں سے دست بردار ہونا پڑتا تھا۔

حفیظ بلوچ نے مزید بتایا کہ یہاں امرود، چکو، آم، سیتا پل اور کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بہت مشہور ہوتے تھے جن کے باغات اب کمرشل پروجیکٹ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔

حفیظ بلوچ زرعی زمینوں کو کمرشل اسکیم اور پروجیکٹ میں تبدیل کرنے کے خلاف دو بار سپریم کورٹ جا چکے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2018 میں مشہورِ زمانہ بحریہ ٹاؤن کیس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔ پھر 460 ارب روپے کی مد میں 16820 ایکڑ زمینیوں کو قانونی قرار دیا گیا تھا اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے سات سالوں میں 460 ارب روپے قسطوں میں دینے کا حکم دیا تھا جس سے بحریہ ٹاؤن کو قانونی حیثیت مل گئی تھی۔

اس فیصلے کے خلاف حفیظ بلوچ نے ساتھیوں سمیت ایک ریویو پٹیشن داخل کی تھی جسے مسترد کیا گیا تھا۔ 2019 میں انھوں نے اس فیصلے کے خلاف ایک اور پٹیشن داخل کی جس کی صرف ایک سماعت ہوئی ہے اور بینچ کا قیام ابھی تک عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔

ملیر ایکسپریس وے سے ماحولیاتی بحران کیسے جنم لے گا؟

 انڈیجنئس رائٹس الائنس کے کنوینر حفیظ بلوچ بتاتے ہیں ملیر ندی بذاتِ خود ایک ماحولیاتی نظام پیدا کرتی ہے، اس سے اہلیانِ ملیر زراعت کرتے ہیں اور پینے کا صاف پانی یہیں سے مہیا کیا جاتا ہے۔

ملیر ایکسپریس وے بننے کی صورت میں ملیر ندی تباہ ہو گی جس سے ملیر کا زیرِ زمین پانی بھی ختم ہو گا اور کراچی کو بڑے ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حفیظ بلوچ کے مطابق "اس پروجیکٹ سے ماحولیات کے ساتھ انڈیجنئس ماحولیات اور حیاتیات کا ماحول بھی تباہ ہو گا۔ اس کے علاوہ کراچی کا دیہی سسٹم بھی تباہ ہو گا"۔

کیرتھر نیشنل پارک جو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی پارک قرار پا چکا ہے، اس کی رینج خضدار بلوچستان سے دادو سندھ اور ملیر تک ہوتی ہے جس سے بہت سے دریاؤں کا سسٹم نکلتا ہے۔ اس میں ملیر اور لیاری ندی شامل ہیں۔ لیاری ندی مکمل طور پر متاثر ہو چکی ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ جاری رہا تو ملیر ندی بھی تباہ ہو جائے گی۔

اس منصوبے سے براہِ راست ڈومولٹی ہیریٹیج مکمل تباہ ہو گی جو کراچی کو پانی فراہم کرنے کا پہلا سسٹم ہے۔ یہ اٹھارویں صدی میں انگریزوں کا بنایا ہوا ہے۔ اس سسٹم کی باقیات جو اب محض بارہ کنوؤں تک محدود ہیں، ملیر ایکسپریس کی وجہ سے 8 کنویں براہِ راست جب کہ 4 کنوئیں بالواسطہ طور پر متاثر رہیں گے۔ جس سے اس منصوبے کے اثرات پورے ملیر کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ 

تصویر بشکریہ، گل حسن کلمتی

ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے پر انڈیجنئس رائٹس الائنس، کراچی بچاؤ تحریک اور بہت سی جماعتوں کی جانب سے 8 مارچ 2022 کو سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کو ایک جوابی رپورٹ بھیجی گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 160 ملین ڈالرز مالیت کے منصوبے سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگرچہ اس کے نقصانات لاکھوں لوگ اٹھائیں گے۔ اس پروجیکٹ سے فائدہ اٹھانے والے صرف ڈی ایچ اے اور کلفٹن کے لوگ ہوں گے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے آب و ہوا کی تبدیلی سے ڈوب جانے اور گہرے متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ کہ ایک سہولت کے لیے جس علاقے کو تباہ کیا جا رہا ہے، وہ کچھ اہم نقصانات کو روکنے اور کم کرنے کی کلید ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اس پراجیکٹ سے ڈومولٹی سسٹم مکمل متاثر رہے گا جس سے 27 کنوئیں براہِ راست متاثر ہوں گے جو زرعی زمینوں کے بڑے رقبے کو سیراب کرتے ہیں جب کہ یہ منصوبہ کنوؤں کے ری چارج کو متاثر کرے گا، ملیر ندی کی معاون ندیوں کا بہاؤ بھی متاثر ہو گا۔ زرعی زمینیں مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع اور کراچی کی زرعی پیداوار کا حصہ ہیں، متاثر ہوں گی"۔

ماحولیاتی کارکن سلمان بلوچ نے حال حوال سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے سے حیوانیات، نباتات اور انسان سب کو ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ 9 مارچ 2022 کو ایک ای آئی اے رپورٹ جو ماحولیاتی اثرات کی تشخص کے لیے کی جاتی ہے، جاری کی گئی۔ اس میں مقامی لوگوں کو شامل تو کیا گیا لیکن بعد میں منصوبے کا نقشہ ہی بدل دیا گیا۔ نئے نقشے کے لیے سیپا کے 2014 قانون کے تحت ایک اور ای آئی اے رپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ دوبارہ نہیں کی گئی، جب کہ نئے نقشے میں اگرچہ ڈمولٹی کے سارے کنویں متاثر نہیں ہوں گے البتہ بلڈوزر چلانے اور کھڈوں کی کھدائی کی وجہ سے ڈمولٹی کا کاریز سسٹم تباہ ہو جائے گا۔ اس سے زیرِزمین پانی متاثر رہے گا اور کنوؤں کی ری فیولنگ بھی متاثر رہے گی جس سے اہلیانِ ملیر کی زراعت بے حد متاثر ہ گوی، اس کا نقصان ڈومولٹی کے کنؤوں سے زیادہ رہے گا کیوں کہ کھڈوں سے ریت نکالنے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی انتہائی متاثر ہو گا۔

سلمان بلوچ بتاتے ہیں، "ملیر پاکستان کا ایک انتہائی ماحولیاتی تنوع رکھنے والا علائقہ ہے، ملیر ایکسپریس وے کے سبب یہ انتہائی اہم خطہ بہت ہی بری طرح سے متاثر ہو گا، پاکستان کہ چند نایاب ریکارڈ اسی علائقے کے مرہونِ منت ہیں، اس کو بچانے کی ضروت ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے سرکاری سرپرستی میں تباہ کیا جا رہا ہے"۔

تصاویر بشکریہ، سلمان بلوچ

ملیر ایک اہم کوریڈور ہے۔ جہاں سردی میں کیرتھر نیشنل پارک سے چرند پرند اور جانور ملیر کا رخ کرتے ہیں جب کہ یہ دوسرا بڑا عالمی کوریڈور ہے جہاں افریقا، سائبریا اور یورپ جیسے سرد علاقوں سے پرندے ملیر آتے ہیں جن میں سے کچھ انڈیا سے نقل مکانی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ملیر سرسبز علاقہ ہے، موسم اور پانی اچھا ہے۔ ملیر ایکسپریس وے کی وجہ سے پوری ڈائیورسٹی متاثر ہو گی۔ 300 سے زائد پرندوں کی نسلیں ملیر میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جانور اور پرجاتیوں کی بھی بڑی تعداد ملیر ندی میں موجود ہے۔ یہ منصوبہ ان سب کے لیے تباہی کا سامان ہو گا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی