{ads}

خالد بشیر

کوڈ۔19 کے تناظر میں شعبہ صحت کی ترقی، تیاری اور رسپانس پروگرام کے تحت بلوچستان حکومت کی جانب سےصوبے کے 32 اضلاع کے شعبہ صحت میں اہم ترین پیش رفت ہوئی۔

 اس حوالے سے بلوچستان کے 22 اضلاع میں پانچ خصوصی پروگراموں کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جن کی تفصیل مع فنڈز درجہ ذیل ہیں۔

 1- ڈی ایچ کیو ہسپتال کی بحالی کے لیے 20 ملین روپے مختص

2- پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ اور بلڈ بنک کے قیام کے لیے 12 ملین روپے مختص

3- ریڈیالوجی ڈپارٹمنٹ کے قیام کے لیے 13 ملین روپے 

4- گائنی و زچگی بلاک کے قیام کے لیے 20 ملین روپے

5- دس بیڈ پر مشتمل آئی سی یو کے قیام کے لیے 15 ملین روپے مختص کیے گئے

مذکورہ پروگرام 22 اضلاع میں اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں لیکن نمائندگان و افسران بالا کی کاہلی و نااہلی سے ضلع نوشکی ان تین بد قسمت  اضلاع میں شامل ہے جہاں صرف ڈی ایچ کیو ہسپتال کی بحالی پروگرام پر اس وقت کام جاری ہے اور 10 بیڈ پر مشتمل آئی سی یو زیرالتوا ہے۔ 

باقی تین پروگرامز پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ کا قیام، ریڈیالوجی ڈپارٹمنٹ کا قیام اور گائنی و زچگی بلاک کا قیام جیسے اہم پروجیکٹس معینہ مدت پر ٹینڈر نہ ہونے، منتخب نمائندوں، ایکسیئن اور ٹھیکیداروں کی نااہلی و عدم دلچسپی کی بنا پر PC-1 سے نکل کر واپس ہو گئے اور ختم ہو گئے۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، قریب ہی ہمسایہ ڈسٹرکٹ خاران میں متعین وقت پر ٹینڈر ہو کر یہی پروجیکٹس تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں جو شعبہ صحت میں کسی بھی علاقہ اور اہلِ علاقہ کے لیے بہت ہی احسن اقدام ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ،

آخر نوشکی میں آنے والے پروجیکٹس میں کیوں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی جاتی؟

آخر کس کی نااہلی و عدم دلچسپی کی وجہ سے شعبہ صحت کے تین اہم پروجیکٹس ٹینڈر نہ ہو کر واپس ہو گئے؟ 

دس سال سے زائد نوشکی میں زیرتعمیر ہسپتال کا کوئی والی وارث نہیں ہے جو دن بدن کھنڈر کی شکل اختیار کر رہا ہے؟

کسی بھی حادثے کی صورت میں ڈاکٹرز و سہولیات کے فقدان کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر کوئی اپنی نااہلی و کاہلی پر شرمندگی کا اظہار تک نہیں کررہا۔

میر گل خان نصیر کے نام سے ضلعی ہسپتال کو منسوب کرنا انتہائی احسن اقدام ہے۔ بے شک یہ ہمارے اپنے بزرگوں اور ہیروز کا نام ذندہ رکھنے اور ان کی خدمات کو سراہنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ لیکن جس طرح سے یک دم شکریہ اور تعریفوں کے پُل باندھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ذہنی طور پر ہم اب بھی کتنے پسماندہ ہیں۔ ہمارا استحصال کرنے کے لیے کتنے آسان طریقے ڈھونڈ لیے گئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہمیں چلتی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اور یقین کی حد تک ممکن ہے کہ یہی لوگ جلد یا بدیر جنرل الیکشن کے دوران ایسے کاموں کو منشور کا حصہ بنا کر ووٹ مانگنے کے لیے میری اور آپ کی دہلیز پر موجود ہوں گے۔

خدارا اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر اپنا مزید استحصال نہ ہونے دیں۔ ہوش کے ناخن لیں۔ اپنے حقوق جانیں اور ان کے لیے مؤثر آواز بلند کرنا سیکھئے ورنہ تاریخ بڑی بے رحم ہے!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی