جاوید حیات
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے گوادر کے
ماہی گیروں کے لیے یاماہا انجنوں کی صورت ایک بہترین پیکج کا اعلان کیا تھا مگر
افسوس چینی حکومت کی طرف سے خیرسگالی کے جذبے کے تحت ملنے والے سولر پینلوں کی طرح
یاماہا انجنوں کا بھی حلوہ بن گیا۔
حکومتِ چین کی طرف سے ملنے والے سولروں کی طرح
وزیراعظم پاکستان کے دو ہزار یاماہا انجنوں کو بھی گوادری حلوے کی طرح سیاسی
پنڈتوں میں کیش کی صورت بانٹ دیا گیا ہے۔ ایک ارب روپے کی خطیر رقم صرف چند
خاندانوں میں تقسیم ہو گئی۔
جس کے پاس کشتی کے لائسنس ہوتے ہیں، وہ آٹھ دس
لاکھ روپے کی میراث کا مالک ہوتا ہے۔ اسے اس خیرات کی ضرورت بھی نہیں ہے اور جو
لوگ اپنے گاہکوں سے تیل کا بیوپار کرتے ہیں، وہ لوگ تو ماہی گیر بھی نہیں ہیں اور
ان کی کشتی میں جو انجن لگا ہے اس کی قیمت اٹھارہ بیس لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔
گوادر میں ایسے بےشمار ناخدا ہیں جو سالوں سے
دوسروں کی کشتیاں چلاتے ہیں۔ صرف لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے ان مقامی مچھیروں کو اس
امداد سے کیوں کر محروم رکھا جا رہا ہے؟
مجھے بہت دکھ ہوتا ہے کہ گوادر کے ماہی گیر
نمائندے بھی دم کٹے بندروں اور مینڈکوں کی طرح سوچتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے
نیک وژن کے ساتھ 2000 یاماہا انجنوں کا اعلان کیا تھا۔ لائسنس ہولڈر کشتیوں
کے ناخدا اور مالکان کو انجن ملتا تو بات ٹھیک تھی لیکن اب یہ 2000 یاماہا انجن
گوادری حلوے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یعنی ہر اس لائسنس یافتہ کشتی کے مالک کو ڈھائی
ڈھائی لاکھ روپے کی خیرات ملے گی جس کا تعلق حق دو حریک اور گوادر ماہی گیر
اتحاد سے ہو گا۔ جو مچھیرے ان دو تنظیموں کے دائرے سے باہر ہوں گے، انھیں ایک ٹکا
بھی نہیں ملے گا۔
سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اب تو یاماہا
انجن نہیں مل رہے، پیسے مل رہے ہیں۔ پیسوں پر تو کشتی میں کام کرنے والے سارے
مچھیروں کا حق ہے۔ پیسوں کو لائسنس کے ذریعے بانٹنا تو ماہی گیروں کے ساتھ ایک
مذاق ہے۔
اس سچائی سے منہ نہ پھیرا جائے کہ ایک کشتی میں
چار سے چھے جانشو (ملاح) کام کرتے ہیں، انھیں اس امداد سے کیوں محروم رکھا
جا رہا ہے؟ کیا وہ ماہی گیر نہیں ہیں؟
انجن کی جگہ جب پیسے مل رہے ہیں تو اس امداد پر صرف کشتی کے مالک یا ناخدا کا حق نہیں بنتا بل کہ ان جانشوؤں کا بھی حق ہے جنھیں مچھلی کے شکار پر صرف ایک حصہ ملتا ہے جب کہ ناخدا یا مالک کو مچھلی کے ہر شکار کے وقت تین حصے ملتے ہیں۔ اپنے حصے کے ساتھ اسے کشتی اور انجن کا حصہ بھی ملتا رہتا ہے۔
حق دو تحریک کے رہ نماؤں اور کونسلروں سے گوادر
کے عام ماہی گیروں کو امیدیں وابستہ تھیں مگر افسوس وہ بھی حلوے کے لیے ہاتھ
پھیلائے چالاک لومڑیوں کی لائن میں کھڑے ہو گئے۔
اس فہرست میں کافی بے ضابطگیاں موجود ہیں۔ ان کے
پاس کشتیاں نہیں ہیں۔ وہ خود ماہی گیری بھی نہیں کرتے۔ گورنمنٹ ملازم ہیں لیکن ان
کے پاس لائسنس ہے۔ ان کا نام اس فہرست میں شامل ہے۔
آج میری نظر ملابند اور بلوچ وارڈ کی فہرست پر
پڑی، اس میں ایک ہی شخص کے 30 کے قریب اسپیڈ بوٹس (کائک) شامل ہیں جو اس کے بھائی،
بہنوئی، چچازاد بھائیوں اور دیگر رشتے داروں کے نام پر ہیں۔
ڈھوریہ کی بستی میں ایک علی سرا نامی ناخدا سالوں
سے دوسروں کی کشتیاں چلاتا ہے، اس کے پاس لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے چارہ اس
امداد سے محروم ہے۔
گزروان وارڈ سے سمیر ولد اقبال نامی ایک دوست نے
بتایا، "میں نہ ماہی گیری کرتا ہوں اور نہ میری کوئی کشتی ہے لیکن اس فہرست
میں میرا نام بھی شامل ہے، آخر میرے نام کا لائسنس کس نے بنایا"؟
گوادر میں ایسے سیکڑوں ماہی گیر ہیں۔ ان کی
کشتیوں کے لائسنس ابھی تک نہیں بنے۔ ان کے نام اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
اب کسی کے پاس لائسنس ہے یا نہیں ہے، اس کی کشتی
ڈوب گئی یا انجن خراب ہے، اب یاماہا انجن نہیں دیے جا رہے، اب پیسے مل رہے ہیں،
صرف ناخدا یا مالک کو نہیں، کشتی میں کام کرنے والے تمام ماہی گیروں کو پیسہ ملنا
چاہیے۔
کیوں کہ یاماہا انجن ملنے والا پروگرام بدل گیا
ہے۔ اب پیسے مل رہے ہیں۔ جب پیسے مل رہے ہیں تو رقم لائسنس اور کشتی کی بنیاد پر
نہیں ملنی چاہیے، اس امداد پر گوادر کے تمام مچھیروں کا حق ہے جو اس کنارے پہ بستے
ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اس فہرست میں ان بوڑھے بزرگ معذوروں اور نابینا ماہی گیروں
کے نام بھی شامل کیے جائیں جو اب ماہی گیری نہیں کر سکتے؛ جیسے ناخدا محراب کانجلی
اور دوسرے ماہی گیر۔
بل کہ میری نظر میں اس امداد پر سب سے پہلا حق ان
ماہی گیروں کا ہے جو بے چارے اب بڑھاپے میں ماہی گیری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ ان
بے چاروں کی نہ آنکھیں سلامت ہیں اور نہ پیر، اس امدادی خنجر سے کم از کم ان ماہی
گیروں کو ذبح نہ کیا جائے۔
حق دو تحریک اور گوادر ماہی
گیر اتحاد کے ممبران اپنی آنکھوں میں عینک کی بجائے دوربین لگا کر ان مچھیروں کی
زندگیوں میں ایک بار جھانک لیں جو امید بھری نظروں سے مولانا اور حسین واڈیلا کی
طرف دیکھ رہے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں