{ads}

سلیمان ہاشم
 

حلوے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ابنِ بطوطہ کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ ابنِ بطوطہ ملتان اور دلی کے درمیان اپنے سفر کا ذکر کرتا ہے اورلکھتا ہے کہ ہندوستان میں مجھے صابن نما ایک چیز نظر آئی، میں نےدکاندار سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ خشک حلوہ ہے۔ ہو سکتا ہے یہ وہی حلوہ ہو جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے ہاں سوہن حلوہ کے نام سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ ایک لطیفہ نما واقعہ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ نادر شاہ دہلی پر حملہ آور ہوا تو انہی دنوں اسے قبض کی شکایت ہوئی۔ حکما نے گل قند پیش کی تو وہ کہنے لگا، "این حلوائے خوب است، دیگر بیار۔" یعنی کیا مزیدار حلوہ ہے اور لاؤ۔ نہ جانے یہ روایت کہاں تک درست ہے کیوں کہ گلقند قبض دور کرنے کے لیے یونانی حکما کا پسندیدہ نسخہ تھا۔ اس صورت میں ایرانیوں کے لیے اسے نئی شے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسے میٹھا ہونے کی وجہ سے حلوہ کہا جاتا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ حلوے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

گوادر میں سترھویں صدی میں عربوں کی آمد کے ساتھ پہلی بار جب عرب تاجروں نے گوادر کے ساحل کا رخ کیا تو وہ ہر کھانے کے بعد قہوہ اور عربی حلوہ کھانے کے عادی تھے۔ حلوہ اب بھی عربستان میں اسی طرح ہوتا ہے جو صدیوں چل رہا ہے۔ اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

عربستان کے شہروں سے دور ان کے مضافاتی علاقوں میں وہ قہوہ کو کھجور یا حلوہ کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور ایک رسم یہ بھی ہے کہ جب تک مہمان قہوہ کے کپ کو نہ ہلائے، عرب میزبان اس میں قہوہ ڈالتے رہیں گے اور حلوہ کھلاتے رہیں گے۔

 جب گوادر کا علاقہ 1783 کو عرب شہزادے احمد بن سلطان کی حکمرانی میں آیا تو والی (گورنر) کے دربار میں ہر بلوچ، عرب اور دیگر اقوام کو شاہی حلوہ اور قہوہ پش کیا جاتا تھا۔ یہ حلوہ سادہ  اور بہت ہی نرم ہوتا تھا۔ یہ نشاستہ، خالص روغن اور شکر سے تیار کیا جاتا تھا۔

حلوے کی رسم ہندوستان میں بہت قدیم ہے۔ اس کو مذہبی تہواروں کے موقع پر صدیوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 

گوادر کے اکثر ناخدا اپنی بادبانی کشتوں سے بمبئی، گجرات اور کلکتہ تک جاتے تھے۔ وہیں ان کو اس کی بھنک پڑی۔ وہ بلوچ ناخدا اور خلاصی اپنے خاندان کے افراد کے لیے تحفے کے طور پر حلوہ اور شکر سے بنی دیگر مٹھائیاں لاتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ گوادر میں سب سے پہلے ایک آغا خانی کھوجہ بندہ علی اور اس کے کارندوں نے گوادر شاہی بازار کے وسط میں ایک صدی کے قریب خوش ذائقہ دارعربی حلوے کی ابتدا کی وقت کے ساتھ ساتھ اس میں انھوں نے مزید تبدیلی کا آغاز کیا اور اسی طرح ایک بزرگ شخصیت جن کا تعلق گوادری دشت سے تھا، ان کا نام صالح حلوائی بھی مشہور ہے، حلوہ اور مختلف مٹھائیاں بناتے تھے۔
ان کا حلوہ پورے بلوچستان اور سندھ تک مقامی کھجور کے پتوں سے بنے چھوٹی چھوٹی ٹوکریوں (سندوک) میں پاؤ سے لے کر ایک کلو تک بیچا جاتا تھا۔ اس دور میں اس میں ذائقہ کے طور پرصرف الائچی ڈالی جاتی تھی۔
  
یہ اعزاز صرف اور صرف خدابخش حلوائی کو حاصل ہے کہ انھوں نے اس حلوے کی تین اقسام بنا کر اس کو منفرد حیثیت دی۔ جس میں سادہ حلوہ، تل والا پیلے رنگ کا حلوہ اور بادامی سبز رنگ کا حلوہ شامل ہیں۔ انھوں نے سادہ الائچی والا، بادام، پستہ اور اخروٹ سے بھرا خوب صورت خوش ذائقہ دار حلوہ بنا کر منفرد نام کمایا۔

گوادر کی ایک اور بزرگ شخصیت ناخدا داد کریم  کے مطابق یہ خوش ذائقہ دار حلوہ بنانے کی ابتدا آج سے 70 سال پہلے ہوئی۔
ناخدا علی اکبر کے مطابق گوادر کے بندہ علی آغا خانی شخص نے گوادری حلوہ بنانے کی ابتدا کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے گوادر شاہی بازار کے وسط میں اپنی دکان میں چابو نامی مٹھائی متعارف کرائی جسے چبانا بہت ہی مشکل تھا۔ یہ چھوٹے ٹکڑوں میں ملتی تھی جسے بچے بہت پسند کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ وہ چابو بنانے والے نہ رہے تو یہ مٹھائی بھی ناپید ہو گئی۔

اسی طرح ریٹائرڈ ماسٹر امام بخش بتاتے ہیں کہ  گوادر میں بندہ علی اور صاحب الدین جو آغا خانی تھے، گوادر کے جدید حلوائی تھے، جنھوں نے گوادری حلوے کی مختلف اقسام متعارف کروائیں۔ انھی کی دکان پر کام کرنے والے خدا بخش بلوچ ان کے شاگردوں میں سے تھے۔ انھوں نے اس کام میں نئی جدت ییدا کی اور گوادری حلوے کو نئی پہچان دی۔ 

خدا بخش حلوائی نے شاہی بازار کے وسط میں اپنی الگ دکان بھی کھولی جہاں گرم حلوہ کھانے کے بہترین انتظام کے ساتھ ساتھ حلوہ خوب صورت ڈبوں میں پیک کر کے بھی کسٹمر کو دیا جاتا ہے۔ آج بھی ان کی اگلی نسل اپنے بزرگ مرحوم  خدا بخش کے نام پر اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔

 گوادر کے شاہی بازار میں یہ حلوہ اب بہت سی دکانوں پر فروخت ہو رہا ہے۔ ان دکانوں میں کئی اقسام کا حلوہ اور مختلف مٹھائیاں بنائی جاتی ہیں۔

ناخدا عبدالسلام کے مطابق قیمتی حلوہ جس کا نام درمان ہے، دیسی گھی، شکر، نشاستہ، الائچی، بادام، اخروٹ اور پستے میں بھرکر پکایا جاتا ہے۔ جو بہت ہی لذیز اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ ایک حلوہ "بانور" ہے جس کا مطلب دلہن ہے۔ یہ پیلے رنگ کا حلوہ ہے، جس میں الائچی، شکر، پیلا کلر اور تل ڈالا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ گوادر کی ایک پہچان خوش ذائقہ جھینگے، شیر مچھلی (گور) ہے تو دوسرا گوادری حلوہ بہت ہی مشہور و معروف ہے۔

سبز رنگ کا گوادری حلوہ اب گوادر کی مشہور سوغات ہے۔ گوادر میں جب کوئی نئی کشتی تیار ہوتی ہے تو اسے سمندر میں اتارنے سے پہلے ماہی گیروں میں گوادری حلوہ نیک شگون کے طور پر بانٹا جاتا ہے۔ تبرک کے طور پر کئی لوگ جمعرات اور جمعے کو حلوہ کی خیرات کرتے ہیں۔

شادیوں میں نکاح کے بعد لوگوں کو حلوہ ہیش کرکے شرکا کا منہ میٹھا کیا جاتا ہے۔ حلوہ کے سیکڑوں چھوٹے ڈبے نکاح میں لوگوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی کے گھر میں بچے کا جنم ہوتا ہے تو حسبِ توفیق لوگ اپنے رشتے داروں اور قریبی لوگوں میں حلوہ تقسیم کرتے ہیں۔ 

گوادر شہر کا گوادری حلوہ اپنے منفرد ذائقے کی بدولت نہ صرف بلوچستان بل کہ بیرونِ ملک خلیج کی مختلف ریاستوں خصوصاً مسقط، عمان میں بھی پسند کیا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ  یہ حلوہ کئی کئی دنوں تک بھی پڑا رہے تو خراب نہیں ہوتا ہے بل کہ خشک ہو کر اس کا  ذائقہ اور بھی مزے دار ہوتا ہے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی