{ads}

سلیمان ہاشم


آج سے کوئی بیس سال پہلے 22 مارچ 2002 کو سابق فوجی صدر نے گوادر کا دورہ کیا اور گوادر کے ساحل اور فش ہاربر پر ایک بڑے جلسے میں گوادر ڈیپ سی پورٹ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ منصوبہ 2007 کو چائنا کے تعاون سے مکمل ہوا۔ صدر مشرف نے پورٹ کے سنگِ بنیاد کے موقع پر کہا تھا کہ اس کے ساتھ وہ ٹیکنکل انسٹیٹیوٹ
بنائیں گے جہاں ماہی گیروں کے بچوں کو تربیت ملے گی اور انھیں پورٹ پر ملازمت ملے گی۔
پورٹ کے تیار ہونے تک وہ اس وعدے کو وفا نہ کر سکے۔ اس کے بعد گوادر پورٹ پر مقامی لوگوں کی نسبت بیش تر باہر سے لوگ لائے گئے۔ جو قیمتی ساحل تھا، جہاں جھینگے اور پاپلیٹ مچھلیوں کی شکار گاہیں تھیں، مقامی ماہی گیر ان سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوئے۔ ایکسپریس وے بناتے وقت بھی ماہی گیر کافی احتجاج کے بعد کسی حد تک گزرگاہوں کے حصول میں کام یاب ہوئے۔ لیکن ایکسپریس وے بناتے ہوئے ماہی گیروں کے گھروں کو کافی نقصان پہنچا۔ کافی احتجاج کے بعد ان کی اشک شوئی کی گئی لیکن معاوضے کی رقم بھی ان کے گھروں کی دراڑوں کو بند نہ کر سکی۔ 

وعدے جو وفا نہ ہوئے!

2007ء کو گوادر گرانڈانی نگور کے علاقے میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تو مقامی لوگوں سے وعدہ کیا گیا کہ ان کے بچوں کو ملازمت فراہم کی جائے گی اور انھیں 50 ایکڑ زمین ایکوائر کی گئی۔ کچھ عرصہ پہلے بارڈر بنایا گیا، لوگوں کے احتجاج کے بعد یہ منصوبہ بھی کینسل کر دیا گیا۔

ائیرپورٹ پورٹ کی تکمیل کے بعد کئی لوگ بھرتی کئے گئے لیکن گوادر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو وعدے کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔

اس سلسلے میں حالیہ دنوں نیشنل پارٹی اور گوادر سول سوسائٹی کے کارکنوں نے گوادر پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا اور پریس کانفرنس بھی کی کہ آخر ہمارے نوجوانوں کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اس تمام عرصے میں گوادر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے کافی احتجاج کے بعد ان میں صرف چند نوجوانوں کومزید تعلیم و تربیت کے لیے چائنا بھیجا گیا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ چائنا میں گوادر اور سی پیک کے نام پر کئی غیرمقامیوں کو اسکالر شپس دی گئی ہیں جن کا تعلق گوادر یا بلوچستان سے نہیں۔

ٹیکس فری زون کا مطالبہ

حالیہ دنوں بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دیا جائے جس کے لیے فنڈر کی فراہمی کا بھی  مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل صوبائی حکومت نے گوادر کو اسپیشل اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ بھی دیا۔ لیکن گوادر کے عوام کو کافی تجربہ ہو چکا ہے کہ اس کا ثمر بھی گوادر کے عام لوگوں کو ملنا ممکن نظرنہیں آتا۔

 گوادر کی کاروباری شخصیت حاجی علی کا کہنا ہے کہ گوادر فری زون سے گوادر کے عام لوگوں کے نام پر غیرمقامی سرمایہ دار اس سے فوائد حاصل کریں گے اور گوادر کے عام عوام دیکھتے رہ جائیں گے۔

صوبائی محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے خط کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس کے دوران وزارتِ منصوبہ بندی اور ترقیات کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اس بات کا جائزہ لے تاکہ گوادر کو اسپیشل اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ دینے کی منظوری دی جا سکے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کہدہ بابرکا کہنا ہے کہ ’بلوچستان حکومت پہلے ہی ایک سرکولیشن کے ذریعے گوادر کو ٹیکس فری زون  قرار دے چکی ہے، اب وفاق سے بھی مطالبہ کررہی ہے کہ وہ بھی اسے ٹیکس فری زون قرار دے۔ امکان ہے کہ رواں بجٹ کے دوران یہ فیصلہ ہو جائے گا۔

انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں اسی بارے میں لکھا اور کہا کہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا شکر یہ کرتا ہوں اور گوادرکے اکابرین و دیگر سٹیک ہولڈرز کا بھی شکرگزار ہوں کہ انھوں نے گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دینے کے لیے سفارشات مرتب کرنے میں تعاون کیا۔

 کہدہ بابر نے حالیہ دنوں کئی وفاقی وزرا سے ملاقات میں گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دینے پر زور دیا ہے۔

گوادر کے عام غریب لوگ اس سے کیسے فوائد اٹھا سکتے ہیں؟

جب کہ گوادر کے اولڈ ایریا کی 80 فی صد آبادی براہِ راست ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ ان کو فری ٹیکس قرار دینے کے لیے کئی منصوبے ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے گوادر کے بارڈرز میں ان مقامی افراد کو یہ اختیار اور موقع فراہم کیا جائے کہ وہ فری زون میں بغیر کسی ٹیکس کے کاروبار کر سکیں اور وہ آگے سے غیرمقامی افراد کواپنا سامان فروخت کرکے ان ہی مقامی افراد کو کچھ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

  پانی بجلی کے ان کے ٹیکس معاف کیے جائیں اور انھیں خصوصی رعایت دی جائے۔ ان کی کشتیوں کے سالانہ ٹیکس سے انھیں مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

ان کے مطابق ’گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دینے کے بعد گوادرکے مقامی افراد معاشی اعتبار سے تیزترین ترقی کی منازل طے کریں گے اور صنعتی زون اور بندرگاہ پر سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ جس کے بعد مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار اور کاروبار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور گوادر میں کاروبار و معاشی ترقی ہو گی۔ اسی طرح سیاحت اور خدمات کے دیگر شعبے بھی ترقی کے منازل طے کریں گے۔ اگر گوادر کے مقامی افراد کو ایسے مواقع نہیں دیے گئے تو گوادر کے عام لوگوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں اور نہ ان  مقامی افراد ایسے ٹرانسپورٹرز ہیں کہ وہ یہاں پورٹ سے سامان افغانستان یا چائنا تک لے جا سکیں۔

ماہی گیر کیا کہتے ہیں؟

 گوادر کے ناخدا اللہ داد کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمیشہ ایسے ہی سپنے دکھائے گئے ہیں اور ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ کیا واقعی ہمیں اس ٹیکس فری زون کا حصہ بنایا جائے گا؟ ہمارے ماہی گیروں میں خوش حالی آئے گی؟ یا گزرے دنوں کی طرح ہمارے نوجوان مایوس ہوں گے؟ انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں جیوانی سے اور مند ایران بارڈر سے 200 میگا واٹ بجلی کا وزیراعظم نے افتتاح کیا۔ ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ روز گھنٹوں بلاوجہ لوڈ شیڈینگ کا عذاب ہم سہنے پر مجبور ہیں اور حکم ران ہمیشہ ہمیں صرف سہانے سپنے دکھاتے رہتے ہیں۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی