{ads}

یونس عابد 

موت بہرحال رنج، الم، دکھ، غم، اور افسوس کا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ حادثاتی موت کا درد اور بھی زیادہ ہوتا ہے اور کسی دوست اور خیر خواہ و سنگت کا بے جرم و خطا قتل اتنا گہرا زخم چھوڑ جاتا ہے کہ وہ کبھی مندمل نہیں ہو پاتا ہے۔ اس سے لہو رِستا رہتا ہے۔ انسان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سینے میں دل دھڑک رہا ہو۔ اس میں انسانیت کی رمق زندہ ہو۔ جب سینے سنگلاخ، دل پتھر ہو جائیں تو انسانیت بھی کوچ کر جاتی ہے۔ انسانی بستیاں جنگلوں میں بدل جاتی ہیں اور ازل سے ہم نے یہی سنا ہے کہ جنگلوں میں درندگی راج کرتی ہے۔ 

میں 4 ستمبر 2023ء کو دس بجے کے قریب اپنا سیل فون کا ڈیٹا کھولا اور وڈھ پریس کلب کا نیوز گروپ آن کیا کہ ایک خبر پر نظر پڑی تو میری آنکھوں کے سامنے دھندلاپن چھا گیا۔ میرے دل میں نشتر سا چبھا۔ وہ خبر سر جاوید احمد لہڑی کی شہادت کی تھی۔

 کارواں چل رہا ہے۔ محفلیں اجڑ رہی ہیں۔ آس پاس بیٹھے، پہلو بہ پہلو چلتے لوگ گُم ہو رہے ہیں۔ دوست، سنگت، احباب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ایک کر کے گر رہے ہیں۔ شہاب ثاقب ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ ہم سوائے اشک شوئی کے کچھ نہیں کر سکتے۔ پہلے سنگت ممتاز احمد بلوچ، پھر سنگت محبوب جان، سمیع اللہ، شہید محمد طاہر، بابا رئیسانی اور اب سر جاوید احمد لہڑی ۔

خونی رشتوں کا بھی اپنا مقام ہے لیکن ہم فکر، ہم خیال، دوست کی جدائی کا غم دنیا کے تمام دردوں پر بھاری ہوتا ہے۔

عرب کا ایک شاعر قیس بن ذریح کہتا ہے:

وكُلُّ مُصِيبَاتِ الزَّمَانِ وَجَدْتُهَا

سِوَى فُرْقَةِ الأَحْبَابِ هَيِّنَةَ الخَطْبِ

احباب و اقارب کی فرقت و جدائی کے علاوہ دنیا کی تمام مصیبتوں، پریشانیوں اور تکلیفوں کو میں نے آسان پایا۔

جاوید احمد لہڑی کے خونِ ناحق نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ جنگلوں کی سفاک وحشتیں ہمارے قصبوں، شہروں، بستیوں میں در آئی ہیں اور درندگی خونی جبڑے کھولے، دندناتی پھر رہی ہے۔ موت کی اٹل حقیقت سے کوئی منکر نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر درندہ اپنی درندگی سے لوگوں کو لقمہ اجل بناتا پھرے۔

بدقسمتی سے بلوچستان کا کوئی شہر، بستی، قصبہ، گاؤں، ان سفاکوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ آمر پرویز مشرف نے بلوچستان میں کشت و خون کی جو آگ سلگائی، اس کا ابھی تک ناقوس بج رہا ہے۔ اس نے بلوچستان کے طول و عرض میں مختلف پرائیویٹ ملیشیا تشکیل دیے جن کے ذریعے بلوچستان کے لوگوں کی نسل کشی کی بنیاد رکھی گئی جو آج کل ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

وڈھ میں اس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو قتل کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حاجی ہدایت اللہ لہڑی، نانک رام، اشوک کمار، رشید احمد لانگو سمیت ان تمام لوگوں کو ڈیتھ اسکواڈ کے فسادیوں نے سرکاری سرپرستی میں قتل کیا ہے۔ 

جاوید احمد لہڑی 4 جون 1978 کو غلام نبی لہڑی کے گھر میں آنکھیں کھولیں۔ وہ وہاں پروان چڑھا، پروان چڑھنا شاید مناسب لفظ نہ ہو کیوں کہ عام غریب خستہ حال گھروں کے بچے اچھی کھاد، وافرپانی اور موزوں آب و ہوا والے پودوں کی طرح پروان نہیں چڑھتے، خود رو جھاڑ جھنکار کی طرح راستہ بناتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے ہی گاؤں وڈھ کاکا ہیر کے پرائمری سکول سے کیا۔ بعد ازاں سردار منیر احمد مینگل پبلک سکول میں داخلہ لیا۔ بنیادی تعلیم یہیں سے مکمل کرکے خضدار کالج میں پڑھے۔ تکمیل تعلیم بلوچستان یونیورسٹی سے کی۔ 

 گول خوب رو چہرہ ، سرخ نشیلی آنکھیں ، کمان جیسے ابرو، لمبے بال، سیدھی مانگ، مسکراتے لب میرے دماغ کے نہاں خانوں میں نقش ہیں۔ 

جاوید احمد لہڑی سے شناسائی بچپن سے تھی۔ تقریباً سن 2007,8 اس طرح ہو گا کہ ہم اس وقت چھوٹے تھے، مدرسہ پڑھ رہے تھے۔ مجھے یاد ہے وڈھ بازار میں ایک ہی دوکان تھی جس کے سامنے ایک ٹھیلہ لگا ہوا تھا۔ اس پر اخبار، رسالے، بلوچستان کے قبائلی و سیاسی رہنماؤں کی تصاویر وہاں سے ملتیں۔ اس وقت اخباروں میں روزنامہ باخبر کوئٹہ، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، ایگل، ضربِ مومن وغیرہ کو لوگ پڑھتے اور پسند کرتے۔ 

ہمیں پڑھنا نہیں آتا۔ میں جب جاتا اس ٹھیلے پر پڑے رسالوں اور اخباروں کو اٹھا کر تصویروں کو دیکھتا۔ زیادہ پڑھنا نہیں جانتا۔ اپنے والد صاحب کی دوکان کے سامنے ٹھیلہ لگانے والا نوجوان جاوید احمد لہڑی ہی تھا جو بچپن ہی سے علم، شعور و آگہی کے چراغ کو ہاتھ میں لیے میدانِ عمل میں آیا تھا۔ جاوید احمد لہڑی 2002 سے 2007 تک روزنامہ آزادی کے وڈھ سے رپورٹر رہے۔ وڈھ پریس کلب کے تاحال نمائندہ تھے۔ وہ  ظلم و جبر کے خلاف مختلف پلیٹ فارم پر لکھتے رہے۔ وہ سمالان میگزین ماہانہ اور تنقیدی شعور خضدار جیسے فکری رسالوں میں بھی لکھتے تھے۔ پسماندہ طبقات کی آواز کو حکام بالا تک اپنے قلم کے ذریعے پہنچاتے رہے۔ انہی صحافتی خدمات کے اعتراف میں انہوں نے 2007 میں اسلام آباد میں سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کیا۔

فوجی آمر نے بلوچستان پر ناحق شب خون مارتے ہوئے نواب بگٹی سمیت کئی لوگوں کو شہید کیا اور لوگوں کو زندہ لاشوں کی صورت میں زندہ رکھا۔ کامریڈ اس خونی دور میں حق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ اپنے قلم و اپنی سیاسی درس گاہ بی ایس او کے تنظیمی پلیٹ فارم سے۔ انہی ادوار میں جاوید احمد لہڑی کو سیاسی مزاحمت کرنے والی بلوچ تنظیم سوشلسٹ سیاست کی امین بی ایس او کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے کی وجہ سے اداروں نے اٹھا کر بدنام زمانہ گوانتا ناموبے جیسے اذیت ناک ٹارچرسیلوں میں بنا جرم و خطا ٹارچر کیا۔ بالآخر چھ مہینے کے بعد معجزانہ طور پر رہائی نصیب ہوئی تو اس وقت تمام جسم سوکھ کر خشک لکڑی کی طرح تھا۔ جسم پر فقط ہڈیاں ہی سلامت تھیں۔ کئی مہینوں تک وہ بستر بیمار پر لیٹے رہے۔ ایک بار پھر دشمنوں نے 2010 میں ان پر ایک جان لیوا حملہ کیا۔ ان کی گاڑی کو گولیوں سے بھون کے رکھ دیا۔ قدرت نے اپنے کرشمہ سے ان کی جان کو بچایا لیکن وہ ٹارگٹ کلرز کے اس جان لیوا ٹارگٹ میں شدید زخمی ہوئے۔ 

 وہ اس حملہ کے بعد اپنی جان کی بقا کی خاطر ایک عرصے  تک انڈر گراؤنڈ رہے۔

میں جب ان کے جنازے کو کندھا دے رہا تھا تو لگا کہ ایک عہد مٹ گیا۔ وہ ایک کھرے، نظریاتی اور صاف گو انسان تھے۔ کالی کوٹھڑیوں میں اذیتیں برداشت کیں، خونی گولیوں کو اپنے بدن میں پیوستہ دیکھا، گھر کے سکون و راحت کو قربان کیا۔ آبلہ پا ہوتے ہوئے کئی عرصہ مائن پر محنت و مزدوری کی مشقت سے لقمہ حلال کمایا۔ ماں باپ کے پیار و لاڈ میں بچپن سے بڑے ہونے والے نوجوان کے ہاتھوں قلم کی سختی کے سوا کچھ نہیں جانتے لیکن اس نے بقائے نظریہ کی خاطر محنت و مشقت برداشت کر کے آسودہ ہاتھوں کو مشقت سے سخت ہونا سکھایا، ہاتھوں میں آبلے پڑگئے۔ اس آبلہ پائی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ خودداری و درویشی کو پسند کیا لیکن مرتے دم تک نظریے کا سودا نہیں کیا۔ محنت، مشقت، ریاضت، عزمِ راسخ اور نامساعد حالات میں ان تھک جدوجہد، سر جاوید احمد لہڑی کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی تھے۔ 

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں
 کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں
 کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں، ہم ہی قتل کر رہے ہیں 

2012 میں سارونہ میں بطورِ ٹیچر تعینات ہوئے۔ خوب شان و شوکت کے ساتھ بے سہارا اور شہروں سے کئی میل دور بچوں کی تعلیم پر توجہ دی۔ انہوں نے جان فشاں عمل کے ساتھ بچوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی۔ وہ نونہال نوخیز قوم کے معماروں کی ترقی کے لیے کوشاں تھے۔

بلوچستان تعلیمی حوالے سے باقی جہان سے بہت پیچھے ہے لیکن تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم سارونہ جیسے قصبے میں رہ خدمت کرنا سر جاوید احمد جیسا جانگسل، اپنے وطن اور اپنے فرضِ منصبی سے عشق رکھنے والا ہی کرسکتا ہے۔ 

،3,4،سمبر 2023 کی درمیانی شب کو ظالموں نے ایک نسل کش منصوبہ تیار کیا، مکمل خاندان کو تباہ کرنے کے لیے بس جسے خدا رکھے اسے کون چکھے! 

لیکن 4 سمبر 2023 کو دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہوا اور ایک صحافی، استاد، سنگت کو ہم سے چھین کر ہمیں مجبور لاچار بے بس کردیا ۔ جو کچھ وڈھ کاکاہیر کی دھرتی پر ہوا، وہ شقاوت، درندگی اور بربریت کا بدترین مظاہرہ تھا۔

جس کسی نے بھی اس کی منصوبہ بندی کی، اس کے سینے میں دل نہیں، سنگِ خارا کی چٹان کا کوئی ٹکڑا تھا۔ اس کا جرم قلم، علم، شعور وطن دوستی ہی تھا۔

اساتذہ، طلبا، صحافی، انسانی حقوق وغیرہ کی تنظیموں میں سے کسی نے ایک آدھا بیان تک بھی جاری نہیں کیا نہ مقامی اساتذہ کے اور نہ مقامی قلم کاروں کے نمائندوں کی طرف سے کوئی علمی ردِعمل سامنے آیا۔ سرجاوید احمد لہڑی کے بہیمانہ قتل پر ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے اس حد تک طاقت میں ہیِں کہ کوئی ان کے خلاف دو بول بھی نہیں کہہ سکتا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اس واقعے کے تمام تحقیقاتی ادارے شفاف تحقیقات کرکے لواحقین کو انصاف دلائیں گے۔

غالب نے کہا تھا:

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

وہ مرزا کا عہد تھا۔ جنوں کی حکایات خونچکاں لکھنے والوں کے صرف ہاتھ ہی قلم ہوتے تھے۔ اس کوچہ نامہرباں میں ہاتھ نہیں، سر قلم ہوتے ہیں۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی