{ads}

عبدالحلیم حیاتان 

بلوچی زبان کے نام ور شاعر قاضی مبارک 16 ستمبر کو تربت میں 68 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ قاضی مبارک کا تعلق فن و ادب کی زرخیز سرزمین پسنی سے تھا۔ پسنی کو چھوٹا لکھنؤ بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے لکھنؤ شمالی بھارت کا ایک شہر ہے۔ بھارتی شہر لکھنؤ کی ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ لکھنؤ میں شاعری، موسیقی اور  فنونِ لطیفہ کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ چوں کہ پسنی بھی مکران میں سب سے زیادہ شاعری، موسیقی اور فنونِ لطیفہ کے لیے خداداد صلاحیتوں کا حامل شہر اور دلدادہ ہے، اِس لیے پسنی کو بھی چھوٹا  لکھنؤ کہتے ہیں۔

مکران کے اِس چھوٹے لکھنؤ نے بے شمار شاعر، ادیب اور فن کار جنم دیے ہیں جن میں ایک نام قاضی مبارک کا ہے۔ قاضی مبارک 24 دسمبر 1956ء کو پسنی میں پیدا ہوئے لیکن کسے پتہ تھا کہ پسنی کا یہ خاک نشیں آگے چل کر اپنے نام کی طرح بلوچی ادب میں مبارک بن جائیں گے۔ مبارک قاضی کی شاعری نصف صدی پر محیط ہے۔ قاضی مبارک نے اپنی زندگی میں بے شمار اشعار تخلیق کیے اور اُن کا شعری اسلوب انتہائی کمال کا ہے۔ وہ  شعر تو کاغذ پر لکھ کر چھوڑ دیتے تھے مگر اُن کے اشعار میں شامل الفاظ روح کو متاثر کرتے ہیں۔ قاضی مبارک کا شعری اسلوب کثیرالجہتی خیال کا مظہر ہے، اِس میں آپ کو عشقیہ اور مزاحمتی شاعری دونوں کے غیر معمولی رنگ ملیں گے۔ 

قاضی مبارک کی شاعری انتہائی سلیس اور آسان زبان میں ہے لیکن جن الفاظ کو وہ پرو کر شعر میں تبدیل کرتے تھے، وہ پُراثر اور معنی خیز ہیں جو عام لوگوں کو بے حد متاثر کرتے ہیں۔ قاضی کی شاعری میں گہرائی اور وسعت پذیری کا غیرمعمولی وجدان اور دانش پایا جاتا ہے۔ اُن کی شاعری میں درد، سوز، مظلوموں کا نوحہ، مزاحمتی افکار اور محبوب کی چاہت کا رنگ جھلکتا ہے۔ قاضی مبارک کی شاعری ہر طبقے کی نمائندگی کا آئینہ دار ہے۔ 

اعلیٰ پائے کا یہ شاعر بلوچستان کے ہر گلی اور کوچے میں معروف رہا ہے۔ قاضی مبارک کے لکھے گئے گیت جب گلوکار گاتے ہیں تو یہ سننے والوں پر نہ صرف سحر طاری کرتے ہیں بل کہ سننے والوں میں سرایت کر جاتے ہیں۔ قاضی مبارک کی شاعری نے بلوچستان کے گھر گھر میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ قاضی مبارک کی شاعری بلوچی ادب میں متبرک بن چکی ہے۔ 

قاضی مبارک کو یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ اُن کے چاہنے والوں نے اُن کو اِن کی زندگی میں پذیرائی بخشی۔ یہی وجہ تھی کہ جب اُن کی میت تربت سے پسنی لائی جا رہی تھی تو اُن کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اُن کی میت کو گاڑیوں کے ایک بڑے قافلے کی صورت انتہائی عقیدت اور احترام سے اُن کی جَنم بُھومی پسنی پہنچایا۔ قاضی مبارک کو دفناتے وقت سلامی پیش کرکے اُن کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور اُنہیں اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ 

قاضی مبارک اپنی شاعری کی وجہ سے امر ہوگئے۔ اُن کو اپنی ماں دھرتی کے سپرد تو ضرور کیا گیا ہے مگر وہ اپنی کمال کی شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کیوں کہ قاضی کی شاعری ہر دور کی ترجمانی کا پیکر ہے۔ قاضی مبارک ایک عہد ساز شاعر تھے اور عہد ساز شاعر کبھی نہیں مرتے بل کہ وہ اپنی شاعری میں امر ہوتے ہیں۔ 

قاضی مبارک کے درجن بھرشعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں زرنوشت، منی عہدءِ گمءِ کسہ، جنگل چنچو زیبا انت، چولاں دریا یل داتگ، آپ سماکءَ جتگ، شکلیں جورانی برورد، گسءَ واتر کنگ لوٹاں، شاگ ماں سبزیں ساوڈ ءَ اور ھانی منی ماتیں وتن شامل ہیں۔ 

قاضی مبارک بلوچی ادب میں اہم مقام چھوڑ کر گئے ہیں۔ اُن کی شاعری بلوچستان کے درد، احساسات اور ناروا سلوک کی ترجمانی کی مظہر ہے اور ان کے غیرمعمولی شعری اسلوب کا درجہ رکھتی ہے۔ شاید ہی ان کا خلا کبھی پُر ہو سکے۔ قاضی اب اگلے جہان سدھار گئے لیکن اُن کی شعری تخلیق مظلوم طبقات  کی ڈھارس بندھاتی رہے گی، انقلابیوں کا خون گرمائے گی اور جب بھی کسی عاشق کو محبوب کی یاد ستائے گی، وہ قاضی کی شاعری سامنے رکھ کر اپنا غم ہلکان کرے گا۔ 

چشیں کازی ءِ مبارکیں
پدا مشکلیں ودی بہ بیت

"مشکل ہے ایسے قاضی کا پھر جنم ہو"

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی