{ads}

 عالمی ماحولیات کانفرنس میں بلوچستان کے نوجوان کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں کی ترجمانی، اسٹارپ آئیڈیا عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز، عالمی رہنماوں کا بلوچستان کے ماحولیاتی اسٹارٹ اپس (کاروبار) میں سرمایہ کاری کا عزم۔  

کوپ 28 اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں پر 28ویں سالانہ اجلاس ہے، جس میں دنیا بھر کے ممالک اس پر بحث کرتے ہیں کہ وہ کیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کر سکتے ہیں اور کس طرح مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں۔ اس سمٹ کا انعقاد دبئی میں 30 نومبر سے لے کر 12 دسمبر تک ہورہا ہے۔ کوپ ’کانفرنس آف دی پارٹیز‘ کا مخفف ہے۔ پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جنھوں نے سنہ 1992 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ 

اقوامِ متحدہ کی اسی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا بھر سے نوجوان سماجی کارکنان، سول سوسائٹی کے نمائندگان، کاروباری افراد، میڈیا اور دیگر طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ سے زائد افراد شامل ہیں۔ 

تیرہ روزہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں درجنوں سرگرمیاں ہو رہی ہیں اور متحدہ عرب عمارات سمیت دنیا بھر کی میڈیا اسے کوور کرنے کے لئے موجود ہے۔ 

گزشتہ روز دبئی میں ہونے والی عالمی کانفرنس کوپ 28 سے متعلقہ تقریبات میں بلوچستان سے شامل نوجوان خالد میر کی جانب سے پاکستان بلخصوص بلوچستان کے سیلاب زدگان علاقوں کو درپیش مسائل پر گفتگو اور پاکستان میں خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ایک اسٹارٹ آئیڈیا دنیا بھر سے آئے رہنماوؐں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا۔ 

خالد حسین میر کا تعلق بلوچستان کے شہر اوستہ محمد سے ہے، وہ ٹیکنالوجی کمپنی کے مالک ہیں جبکہ چانن ڈولپمنٹ ایسوسی ایشن نامی نوجوانوں کی ملکی تنظیم میں بطور رکن بورڈ آف ڈائریکٹر اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ کانفرنس کی سرگرمیوں کے دوران انہوں نے میڈیا کو بتائی کہ چانن ڈولپمنٹ ایسوسی ایشن نے ناصرف ہنگامی حالات میں سیلاب زدگان کی مدد کی بلکہ ماحولیاتی ناانصافی کے خاتمے کے لئے مسلسل ایڈوکیسی کا حصہ ہیں۔  

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں جب بھی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات ہو تو لوگ صرف درخت لگانے کی بات تک محدود ہوتے ہیں بلا شبہ یہ ایک انتہائی اہم قدم ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے لئے ہمیں اس سے کہیں زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

اشیا ضرورت خریدنے کے لئے پلاسٹک کے استعمال سے لے کر رات کو بچ جانے والا اضافی کھانا کوڑا دان میں ڈالنے تک سب عمل ماحولیاتی تبدیلی کا سبب ہیں۔

گزشتہ روز انہوں نے نا صرف سیلاب زدگان علاقوں میں ماحولیاتی ناانصافی کے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیلاب زدگان کے مسائل عالمی رہنماوں کو بتائے بلکہ ٹینکالوجی کی مدد سے کسیے پاکستان میں خوراک کی کمی سے نپٹنے کے لئے اپنے جدید اسٹارٹ اَپ کا آئیڈیا بھی پیش کیا جسے دنیا بھر سے آئے رہنماوں نے نا صرف سراہا بلکہ بنیادی جائزے کے بعد بلوچستان کے اسٹارٹ اَپس میں سرمایہ کاری کا عزم بھی کیا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی