{ads}

حال حوال رپورٹ


 خواتین پرتشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ عالمی مہم کے سلسلے میں آزات فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ورلڈ فوڈ پروگرام و بے نظیر نشونما پروگرام کی معاونت سے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کلی شریف نوشکی میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ 

تقریب کی مہمانِ خاص  نامور خاتون سماجی  کارکن، نمائندہ ِ سوشل ویلفیئر زینت النسا تھیں جب کہ اعزازی مہمانان میں آزات فاؤنڈیشن کے پروگرام آفیسرعبدالواحد کاکڑ، پروفیسرغمخوارحیات، ریجنل منیجر آزات فاونڈیشن جہانزیب مینگل اور ہیڈمسٹریس گرلز شریف خان ہائی سکول میڈم زرینہ شاہ شامل تھیں۔ 

اس موقع پر زینت النسا، پروفیسر غمخوارحیات اور عبدالواحد کاکڑ نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک لمحہ ِ   فکریہ ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خواتین ہر قسم کا تشدد، غیرت کے نام پر قتل، جبری یا کم سنی کی شادیاں اورصننفی امتیاز کے حوالے بدترین ممالک میں سے 134 ممالک کی فہرست میں پاکستان 132 ویں نمبر پر ہے اور ایشیائی ممالک میں سب سے نچلے درجے پر۔ گذشتہ برس پاکستان میں 32 فیصد خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں زبردستی کی شادی، ریپ، خواتین کی اغوا کاری، کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد اورغیرت کے نام پر قتل کے ذریعے تشدد نمایاں رہا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ  خواتین کے ساتھ ہمارا رویہ قابلِ تعریف نہیں۔ ہمارے یہاں بلوچ اور پشتون معاشرے میں بھی خواتین  جسمانی، ذہنی، جنسی، سماجی تشدد کی شکار ہو رہی ہیں۔ آئے روز کئی خواتین اور بچیوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی  رپورٹس سامنے آتی ہیں۔ یہ ایک سماجی المیہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی خواتین و بچیاں حد درجہ ذہنی اسٹریس کا شکار ہو کر خودکشی کا انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے بھی میں کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔ سماجی تنظیم الائنس اگینسٹ سیکچوئل ہراسمنٹ کے مطابق تقریباً 93 فیصد پاکستانی خواتین تسلیم کرتی ہیں کہ کام کرنے والی جگہ چاہے وہ نجی ہو یا سرکاری دونوں شعبوں میں انہیں کسی نہ کسی قسم کی ہراسانی اور اذیت کا سامنا پڑتا ہے۔

مقررین نے کہا کہ اس مسلے کا واحد حل یہ ہے  کہ خواتین اور بچیوں کے حوالے سے  اپنے رویوں میں  مثبت تبدیلی لا کران پر تشدد کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی  کرکے خواتین کو ان کے انسانی حق دیں۔ خواتین پر تشدد کسی بھی مہذب معاشرے میں انتہائی غلط تصور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے خواتین کو چاہییے کہ  کسی بھی تشدد کو چھپ کر سہنے کے بجائے اس کے برخلاف بھرپور آواز اُٹھائیں۔ تشدد کی رپورٹس پولیس اور متعلقہ اداروں میں لازم کریں اور ایسے عوامل کی نشاندہی میڈیا میں بھی کریں۔ خاموشی سے تشدد کو سہنا کمزوری کی علامت ہے کیوں کہ خواتین کسی بھی حوالے سے مردوں سے کم نہیں۔

 انہوں نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ بچیوں کو بااعتماد بنانے کے لیے ان کی ذہن سازی کریں۔ انہیں اچھی اور شعوری تعلیم دے کر زندگی کے تمام تر شعبوں میں آگے بڑھنے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں اور تعلیمی اداروں میں موجود ٹیچرز، طالبات کو تشدد جیسے عوامل کے نقصانات سے متعلق شعورو آگہی فراہم کریں۔ 

بالخصوص موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی خواتین اوربچیاں، ٹرانس جینڈرز ذہنی تشدد کا شکار ہورہی ہیں۔لہٰذ اسوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے حوالے سے خواتین اور بچیوں کو شعور آگہی فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ معاشرے میں صنفی امتیاز اور خواتین پرکسی بھی قسم کا تشدد قابلِ قبول نہیں، نہ کوئی مذہب کسی پر تشد د کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس مہم کامقصد لوگوں میں خواتین کے حوالے سے روا رکھے جانے والے منفی و امتیازی  رویوں کے خلاف آواز اُٹھا کر شعوروآگہی پھیلانا ہے۔

اس موقع پر سکول کی طالبات نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے ایک بہترین (خاموش میسج) خاکہ بھی پیش کیا۔ 

نیز اس حوالے سے بچیوں نے خوب صورت ٹیبلوز بھی پیش کیے۔

 تقریب میں صوبائی ایم اینڈ ای آفیسر آزات فاؤنڈیشن رابعہ بہزاد کے علاوہ سکول ٹیچرز، طالبات اور کیمونٹی ممبران نے بڑی تعداد میں شرکت  کی۔

نظامت کے فرائض ڈسٹرکٹ ایم اینڈ ای آفیسر نوشکی حلیمہ خان  نے سرانجام دیئے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی