{ads}

 نجیب سائر



 2009 کے اواخر میں لاہور کی معروف انجینیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔ مستقبل کے خواب لیے پہنچے۔ وہاں دوسرے صوبوں کے طلبا بھی ایک مخصوص کوٹہ کے تحت آتے ہیں مگر ظاہر ہے اکثریت پنجاب کے طلبا کی ہوتی ہے۔ 

جن سوالوں کا شروع دن سے سامنا ہوا ان میں سرفہرست یہ تھا کہ اکبر بگٹی کیسے انسان تھے؟ یہ سوال ہر کسی کی زبان پہ اس لیے بھی تھا کہ ان کی شہادت کو محض تین سال گزر چکے تھے۔ جیسے تیسے کرکے جواب دے دیتے مگر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں تھا۔ ہر محفل میں یہ بات ضرور پوچھی جاتی۔ بلوچستان کی حد تو ٹھیک تھا مگر جب پشاور میں کوئی واقعہ ہوتا تو ہمارے دوست پوچھتے بھئی کیسے حالات ہیں پشاور کے۔ ہم انہیں سمجھا کے تھک جاتے کہ یار پشاور اور کوئٹہ دو الگ الگ صوبوں کے شہر ہیں۔ مگر کیا کرتے وہاں ہر قمیض شلوار والا خان ہی ہوتا ہے۔ 

ایسے سوالات نہ صرف طلبا بلکہ کاروبار کی غرض یا سیرو تفریح کے لیے جانے والوں سے بھی کیے جاتے ہیں۔

میں چونکہ سکول و کالج کے زمانے سے کتابوں اور حالات حاضرہ سے شغف رکھتا آرہا ہوں۔ یونیورسٹی میں بھی روزانہ اخبار پڑھتا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے دوست کچھ نہیں جانتے۔ جاننے کے لیے پڑھنا ضروری ہے مگر وہ کورس کی کتابوں سے ہٹ کر نہیں پڑھتے۔ اگر تھوڑا بہت انہیں علم تھا تو جیو نیوز کی ہیڈ لائنز کی حد تک اس سے آگے کچھ نہیں۔ یہ اس لیے بھی کہ اگر کوئی واقعہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں ہوتا تو وہ اتنا بتاسکتے تھے جتنا انہیں چینلز کی سکرین پہ نظر آتا تھا۔

شام کو یا کسی وقت بلوچستان یا خیبر و گلگت کے دوست اکٹھے ہوتے تو یہ سوال بھی زیر بحث آتا کہ یہاں کے لوگوں کو ہمارے بارے میں علم نہیں۔ سینئرز سے پوچھتے تو وہ کہتے کہ حیرانی کی کوئی بات نہیں جتنا پتا ہے ان سے بات کرلیں اگر نہیں بتائیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 

کبھی کبھار انہیں کسی واقعے کا بتاتے تو انہیں یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ایک بار کسی ٹور سے واپسی پہ بس میں بحث چڑھ گئی۔ میں نے چند ایک واقعات ان کے گوش گزار کیے تو ایک نے برملا کہا ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں نہیں مانتا۔ اس کے بعد میں نے کسی ایسی محفل میں حصہ نہیں لیا۔ 

دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیا کہ واقعی بحث کرنا فضول ہے۔ میرا ماننا ہے کہ بحث ان سے ہوتی ہے جن کو کسی بات کا علم ہے، جو حقائق سے باخبر ہوتے ہیں۔ وہ دلائل پہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جنہیں کچھ نہیں پتا انہیں آپ بتاتے ہیں، سکھاتے ہیں، سمجھاتے ہیں جیسے کوئی استاد اپنی کلاس میں پڑھاتا ہے۔ اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ لیکن آپ کسی ایسے شخص سے بحث میں الجھیں جسے کچھ خبر نہیں تو غلط آپ ہیں وہ نہیں۔ 

ہمارے بعد جو بھی آئے تو ہمیں اپنے جونئیرز کو یہی بتانا پڑتا کہ بھئی آپ جہاں سے بھی آئے ہیں یہاں صرف کوئٹہ کا نام لیا کریں اس سے آگے جائیں گے تو عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اور اگر پشاور کا پوچھا جائے تو بتا دیں کہ ہاں وہ ہم سے تو چند کلومیٹر کے فاصلے پہ ہیں۔ ہمارا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ 

(جاری ہے)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی