یوسف بلوچ
معروف کالم نگار، صحافی طارق فتح انتقال کر چکے ہیں۔ وہ پاکستانی تھے لیکن آج کل پاکستانی نژاد کی شناخت سے جانے جاتے تھے۔
بلوچستان میں ان کے کئی چاہنے والے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بے باک بولتے تھے، زمینی حقائق کو پرکھتے تھے اور ان سے جو مواد ملتا تھا، وہی بولتے تھے۔
پاکستان میں بالخصوص پنجاب کے دانش وروں کو بلوچستان کے جغرافیہ اور تاریخ کا علم انتہائی کم ہے۔ ون یونٹ کی مزاحمت، ستّر کی جنگ کو جانتے ہیں اور شاید گیس کی وجہ سے سوئی کو جانتے ہیں، سمَندر کی بدولت گْوادر کو۔ یہی مواد سامنے رکھ کر بلوچستان کو پرکھتے ہیں، طارق فتح کا بھی کچھ ایسا ہی حال رہا ہے۔
البتہ طارق فتح برصغیرِ ہند کی تقسیم کے خلاف تھے، بھارتی ترانے میں سندھ دھرتی کے نام کو سامنے رکھ کر کہتے تھے کہ سندھ اب الگ ہو چکا لیکن سندھ کا مقام ہند ہے اور ہند کی تکمیل سندھ کے بغیر ادھوری ہے۔
شاید کٹر قوم پرست تھے۔ برصغیر کی صدیوں پر مبنی بھائے چارے کی تاریخ کو دو قومی نظریہ کی رو سے مٹانے کے خلاف تھے۔
وہ بلوچستان کئی بار آ بھی چکے تھے۔ معروف رہنماؤں سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔
بلوچ ثقافت، غیرت اور بلوچ ضابطہ اخلاق کے مداح تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بلوچ کا ماضی ہی سیکولر ہے۔ لکھتے ہیں جب الحاق کے بعد کوئٹہ میں نئے نئے آبادکار آنے لگے تو بلوچ ان کے منفرد لباس، خاص کر برقعے وغیرہ کو دیکھنے چلتے جاتے تھے۔ بلوچ کے لیے یہ سب نیا اور منفرد تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایک دن مچھ جیل میں نواب اکبر بگٹی سے ملنے گئے۔ بڑا دسترخوان سجایا گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں اکبر بگٹی کو نہیں پہچان رہا تھا۔ میرا خیال تھا وہ سردار ہیں، رعب و دبدبہ میں ہوں گے، عام لوگوں کے دسترخوان میں کیسے کھائیں گے۔ نواب بگٹی نے مجھے مخاطب کرکے کہا، "کھانا ٹھیک ہے؟" جواب دیا، "زبردست ہے، بس نواب اکبر بگٹی سے ملنے کی دیر ہے۔" وہ مسکرائے اور خاموش رہے۔ کچھ دیر بعد پتا چلا یہ ہی نواب اکبر خان بگٹی تھے جنھیں دیکھ کے ایک پل محسوس نہ ہوا کہ یہ ڈیرہ بگٹی کے سردار ہیں۔
میر غوث بخش بزنجو سے منسوب ان کے ایک تاریخی انکشاف پہ میں ششدر رہ گیا۔ ان کے مطابق نواب غوث بخش بزنجو اور خان عبدالصمد اچکزئی انڈین نیشنل کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ہوا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ دونوں صاحبان ریاست قلات کو ہندوستان کو ضم کرنے کے لیے بھارت بھی گئے۔
کسی بھی بلوچ مؤرخ خاص کر بلوچستان کے قدیمی انتظامی ڈھانچے میں یہ ذکر ہنوز موجود نہیں ہے۔
میں نے بلوچ مؤرخ ڈاکٹر فاروق بلوچ سے معلومات لینا چاہیں۔ آپ بھی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے مجھے بتایا کہ عبدالصمد اچکزئی کا تعلق کاریز چمن سے ہے اور میر بزنجو نال خضدار سے تھے۔ اگرچہ یہ دونوں بلوچستان میں ہوتے تھے لیکن خان اچکزئی برٹش بلوچستان میں ہوتے تھے جو پشتون و بلوچ علاقہ ننانوے سال لیز کے لیے سامراج برطانیہ کو دیا گیا تھا۔ وہاں براہِ راست برطانوی قوانین کی پابندی ہوا کرتی تھی۔ انگریز سرکار کے جدید خیالات کی وجہ سے برٹش بلوچستان میں اگرچہ سْیاست کی گنجائش رہتی تھی البتہ ریاست قلات میں آزادانہ سیاست ہوتی ہی نہیں تھی۔ ینگ بلوچ خفیہ کام جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس صورت حال میں کانگریس کے ممبرز سے ملاقات کا خیال احمقانہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاستِ قلات کے مقتدر مسلم لیگ کے مقابلے میں کانگریس کو سپورٹ کرتے تھے جو محض اخلاقی تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ برٹش بلوچستان میں قاضی عیسیٰ پشتون اکثریت پر مسلم لیگ کی ممبر سازی کرتا تھا۔
اب تو خیر میر بزنجو حیات نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فاروق کا خیال ہے کہ ان سے ایسا بیان منسوب کرنا تاریخی نابلدی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
بلوچ تاریخ دان ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بھی مجھے اس کی نفی میں جواب دیا اور غلطی کی نشان دہی کی۔
خان عبدلصمد اچکزئی، پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود اچکزئی کے والد ہیں۔ پشتون سْیاست میں آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ الحاق کے بعد بلوچ و پشتون کی متحدہ سیاست میں بڑا نام رکھتے تھے۔
الیکشن کا وقت قریب ہوتے ہی محمود اچکزئی بولان تا چترال کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ برٹش بلوچستان، پشتون کی ملکیت رہا ہے۔
اس میں کوئی ابہام نہیں کہ بعض پشتون علاقے افغانستان سے جدا کرکے جبراً پاکستان میں شامل کر لیے گئے لیکن برٹش بلوچستان کی مکمل جغرافیائی حدود پشتون علاقوں تک محدود نہیں ہیں۔ اس میں بلوچ علاقے بھی آتے ہیں جنھیں 99 سالہ لیز پر برطانوی سامراج نے ریاست قلات سے لیا تھا جن کی معیادِ معاہدہ بھی اب ختم ہو چکی۔
طارق فتح متحدہ ہند چاہتے تھے۔ لیکن بلوچستان، ہند سے جغرافیائی، علاقائی و ثقافتی تعلقات میں رہا ہی نہیں، سوائے تجارت کے۔
بہرحال، بلوچ زمیں زادوں سے یکجہتی و ہمدردی کے لیے طارق فتح صاحب کا شکریہ۔
ایک تبصرہ شائع کریں