{ads}

سلیمان ہاشم

جمعرات کے روز گوادر پورٹ میں ہونے والی ایک تقریب میں مقامی ماہیگیروں میں 7500 راشن پیکٹس تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ تقریب چائنیز سفارت خانے کی جانب سے بزنس سینٹر میں منعقد کی گئی تھی۔ تقریب میں مقامی صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ پریس کلب سے باقاعدہ صحافیوں کی لسٹ طلب گئی تھی۔ بعدازاں صحافیوں کو بتایا گیا کہ تقریب ملتوی کر دی گئی ہے، مگر پورٹ ذرائع سے معلوم ہوا کہ تقریب منعقد تو ہوئی البتہ وہ افراتفری کا شکار ہو گئی۔ 

نیشنل پارٹی کے مرکزی  ماہی گیر سیکریٹری آدم قادربخش جو اس تقریب میں بطور مہمان اور مقرر مدعو تھے، انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی تقریر میں چائینز حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ گوادر کے عوام کو راشن کی نہیں، ٹیکنیکل ٹریننگ کی، تکنیکی اداروں کی، سکالرشپس کی اور باعزت ملازمتوں کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول، انھیں پارٹی کارکنوں کے لیے دس راشن پیکٹ لینے کی آفر بھی کی گئی جو انھوں نے رد کر دی۔ 

 اس تقریب میں تقریباً 60 کے قریب لوگ شامل تھے، جن میں مقامی ماہی گیر اور مزدوروں کی بھی خاصی تعداد تھی۔

بعدازاں گوادر سول سوسائٹی کی جانب سے ایک بیان سوشل میڈیا میں وائرل ہوا۔ جس میں کہا گیا کہ چائنا کی طرف سے گوادر پورٹ میں غریب ماہی گیروں کے لیے 7500 راشن پیکٹ کی آمد کے باوجود گوادر کے غریب عوام کو نظرانداز کر کے اپنے من پسند لوگوں میں یہ راشن تقسیم کیا گیا۔ سیکڑوں خواتین اور بچے تپتی دھوپ میں پورٹ کے گیٹ کے باہر کھڑے رہے، میرین سیکیورٹی نے انھیں اندر داخلے کی اجازت نہیں دی۔

سول سوسائٹی گوادر کے مطابق پورٹ کے گیٹ کے باہر راشن کے حصول کے لیے تپتی دھوپ میں بیٹھے لوگ اپنی جیب سے کرایہ دے کر رکشوں میں گھروں کو واپس چلے گئے۔

گوادر کے ماہی گیروں نے مطالبہ کیا کہ گوادر پورٹ انتظامیہ فوری طور پر تقسیم کئے گئے راشن کی لسٹ شائع  کرے۔ ضلعی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ گوادر پورٹ کی اس بے ضابطگی کا فوری طور پر نوٹس لے تاکہ غریب اور مظلوم عوام کی حق تلفی نہ ہو۔

سول سوسائٹی ذرائع نے الزام لگایا ہے کہ سننے میں آیا ہے کہ ماہی گیروں کے نام پر آنے والا راشن پورٹ پر کام کرنے والے لوگوں اور غیر مقامیوں میں تقسيم کیا گیا، اگر واقعی ایسا ہے تو انتظامیہ اس کا نوٹس لے۔

ایک اور ذریعے نے بتایا کہ دراصل راشن کے نام پر صرف آٹے کے تھیلے تقسیم کیے گئے، جو ماہی گیروں نے احتجاجاً لینے سے انکار کر دیا، اس لیے مبینہ طور پر وہ تھیلے وہیں کام کرنے والے مزدوروں میں بانٹ دیے گئے اور ان میں جو کچھ رہ گئے، ان کی تقسیم  انتظامیہ کے لیے سر درد ثابت ہوا۔ 

دوسری جانب انتظامیہ کے ایک ذریعے نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیروں میں راشن تقسیم کرنے کی تقریب بوجوہ ملتوی کی گئی ہے، چند روز بعد اس کا انعقاد دوبارہ ہو گا اور حقیقی مستحقین میں ہی راشن تقسیم ہو گا۔ 

واضح رہے کہ گوادر پورٹ کو فعال کرنے والی چائنیز حکومت نے گزشتہ دو دہائیوں میں گوادر میں اب تک صرف ایک ماڈل سکول اور ایک ٹیکنیکل سینٹر بنایا ہے جہاں دوسرا سیشن ابھی یکم مئی سے شروع ہوا ہے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی