{ads}

جاوید حیات

میں نے اس سے پہلے گوادر کے شہریوں اور مچھیروں کی بہتری کے لیے فوج میں ایسا شان دار جذبہ اور نیک وژن کبھی نہیں پایا۔

ہمیشہ بیماروں کے واسطے بستی میں ایک آدھا دن میڈیکل کیمپ لگتے دیکھا یا تو طوفانی بارشوں کے تھم جانے کے دوران فوجی گاڑیوں کو عوام میں راشن کے کچھ تھیلے بانٹتے ہوئے دیکھا ہے۔

ڈیڑھ دو ماہ پہلے میں نے دیکھا کہ پاک آرمی اپنے خرچے سے گوادر فش ہاربر کے آکشن ہال کے سامنے چند دکانیں تعمیر کر رہی ہے اور آکشن ہال کے اندر مچھلی فروش اور مچھلی کاٹنے والے مقامی لوگوں کی سہولت کے لیے بھی سیمنٹ اور بلاک سے ٹائل ماربل کے ٹیبل بنانے کا کام جاری تھا۔

جس دن گوادر پورٹ کے افسران اور بریگیڈیئر صاحب نے اس نیک کام کا افتتاح کیا، ان کی روانگی کے بس میں دو چار منٹ دیر بعد وہاں پہنچا تھا۔ وہاں ملابند سے تعلق رکھنے والے میرے دوست اختر اداس کا کیبن بھی سالوں سے موجود ہے اور میں وہاں دن میں ایک دو چکر ضرور لگاتا ہوں۔

وہاں مزدوروں اور دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ آرمی ان 12 دکانوں کو تعمیر کرنے کے بعد انھیں فش ہاربر کے حوالے کرے گی پھر گوادر فش ہاربر ان دکانوں کو لوگوں کو کرائے پہ دے کر مزے کرے گی، مطلب کرایہ خود وصول کرے گی۔

شام کو جب کام کا جائزہ لینے وہاں ایک فوجی آئے تو میں نے انھیں بتایا کہ آرمی کے اس نیک وژن سے پہلے مجھے نیوی کے دو کام بھی بےحد پسند آئے، پہلا گوادر کے ماہی گیروں کے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے بحریہ اسکول کا خوب صورت تحفہ ملا اور دوسرا نوجوانوں کی تفریح کے لیے بزان ایف ایم نائنٹی ریڈیو اسٹیشن کی صورت کوہِ باتیل کو ایک توانا آواز ملی جس سے باتیل کا دکھ سمندر پار گونجنے لگا۔ 

میں نے انھیں مزید بتایا کہ یہ بہترین وژن میرے دفتر کا تو نہیں ہو سکتا، میرے دفتر کے افسر تو صرف اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں، انھیں دادو، اشرف، غلام اور انور کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

میں نے انھیں بتایا اس نیکی میں ایک کام آپ سے چوک گیا ہے، گوادر شہر کو اس وقت ایک فری ڈرگ ایڈک سینٹر کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ہر دوسرے گھر میں دو سے تین نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔

ایک کشتی میں اگر چھے لوگ کام کرتے ہیں تو چار بندے نشہ پیتے ہیں، آئس اور کرسٹل گوادر کی ہر بستی میں ریوڑی کی طرح بکتی ہے۔

نابالغ بچوں سمیت عورتیں بھی اس کا شکار ہو رہی ہیں، پولیس اور منشیات کی روک تھام کرنے والے دیگر ادارے اس تباہی کو روکنے میں بری طرح ناکام ہیں بل کہ شہر کے بیش تر منشیات کے اڈے خود پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں چلتے ہیں۔

گوادر فش ہاربر میں آرمی نے جو دکانیں بنائی ہیں، وہاں کام کرنے والے مزدوروں اور سپاہیوں نے اپنی آنکھوں سے روز نشہ پینے والوں کے تماشوں کا جنازہ دیکھا ہے۔

آرمی چیف نے گوادر کی بہتری کے لیے پچاس کروڑ روپے دیے ہیں، گوادر شہر کے نوجوانوں کو منشیات دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، آرمی جس طرح دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہے، وہ گوادر اور مکران میں منشیات کے خاتمے کے خلاف بھی جنگی بنیادوں پر آپریشن کرے۔

محترم آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب!

ہمارے آباؤ اجداد سلطنتِ عمان سے تعلق توڑ کر پاکستان میں یہ دن دیکھنے کے لیے شامل نہیں ہوئے تھے کہ ان کے بچوں اور نواسوں کو وطن کے رکھوالوں کے سامنے منشیات کا اژدہا نگل جائے۔

اس شہر کی مائیں ہر روز اپنے بچوں کو منشیات کی آگ میں جھلستا مرتا دیکھتی ہیں، ان ماؤں کی آنکھوں میں خواب نہیں صرف درد کے چھالے ابلتے ہیں، آرمی کی یہ نیکی قبولیت کے درجے تک اس وقت پہنچے گی جب پاک فوج آرمی اسکول کے جیسا گوادر شہر میں ایک مثالی فری ڈرگ ایڈک سینٹر جلد تعمیر کرے گی۔

ایران میں منشیات بیچنے والوں کو حکومت سرعام پھانسی پہ لٹکاتی ہے پھر اس لاش پر کوڑے برسائے جاتے ہیں، سعودی عربیہ میں تلوار کے وار سے ڈرگ مافیا کے سر قلم کر دیے جاتے ہیں لیکن افسوس سی پیک کے جھومر گوادر شہر کی سڑکوں پر اب جشن آزادی 14 اگست، قراردادِ پاکستان 23 مارچ، یومِ تکبیر28 مئی، یوم تکریم 25 مئی کی ساری رنگارنگ تقریبات کو ڈرگ مافیا اپنی بڑی گاڑیوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر مناتی ہے۔

صرف پدی زر کے سمندر سے سالانہ اربوں ڈالرز کی منشیات سیکیورٹی اداروں کی ناک کے نیچے خلیجی اور یورپی ممالک میں اسمگل ہوتی ہے۔

گوادر سی پیک کا جھومر ہے اور اس شہر کے ہر دوسرے گھر میں دو سے تین لڑکے نشے کے عادی ہیں۔

پچھلے پانچ سال سے ایسے ہی ایک درد کو پالے ہم ایک قبرنما کمرے میں زندہ مرچکے ہیں، پولیس سے جب مدد مانگتے ہیں تو ایس ایچ او صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایک مینٹل کیس ہے، اپنے بھائی کو پاگل خانے میں داخل کر دو۔

سپاہیوں کے سامنے فریاد لے کر جاتے ہیں تو وہ رولز سمجھاتے ہیں کہ یہ تو پولیس کیس ہے، ہم صرف دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں۔

دو چار منشیات فروش ہر دوسرے ہفتے پولیس کی پکڑ میں آ جاتے ہیں، ان پر مقدمہ بنتا ہے، تفتیش بھی ہوتی ہے اور پتا نہیں کیوں پولیس ان گرفتار لوگوں سے یہ پوچھنا بھول جاتی ہے کہ یہ منشیات تمھیں کون سپلائی کرتا ہے؟

یہ تماشا کیوں ختم نہیں ہوتا؟

وہ ڈرگ ڈیلرز کیوں قانون کی گرفت میں نہیں آتے؟

پکڑے گئے یہ لوگ تو اپنے گھروں میں دھنیا پالک بھی نہیں اگاتے، آخر یہ زہر ان بھوکے بیمار منشیات فروشوں تک کیسے پہنچتا ہے؟

سڑک پر کھڑے سیکیورٹی اہل کار کو گاڑی کے اندر دودھ اور کھجور کے دو پیکٹ تو نظر آ جاتے ہیں لیکن منشیات کا بہتا ریلا کسی کو نظر نہیں آتا۔ 

منشیات کا یہ اژدہا گوادر میں ہزاروں نوجوانوں کو نگل چکا ہے، ان بیچاروں کی مائیں اپنے بچوں کو روز مرتا دیکھ کر دن رات روتی رہتی ہیں۔

اب نشہ اتنا زہریلا ہو گیا ہے کہ تیس پینتیس سال کی عمر میں نوجوان زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

وہ جتنے سال زندہ رہتے ہیں، ایک تندرست جسم اور ایک صحت مند دماغ سے محروم رہتے ہیں۔

گوادر میں نشہ زیادہ تر فش ہاربر، نیا آباد، بخشی کالونی، سلالہ بازار، کوہ بن وارڈ، میرلعل بخش وارڈ، گوتری بازار،عثمانیہ وارڈ اور شاہی بازار کے پراانے مکانوں میں بِکتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ کہ ڈرگز بیچنے والوں کے اپنے بچے بھی اِس کا شکارہو گئے ہیں اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ نشہ پیتے اور بیچتے ہیں۔

پولیس تو سمجھ لو حکومت کی گھریلو ملازمہ بن کر رہ گئی ہے۔ اسے جو حکم ملتا ہے صرف اسی کو فالو کرتی ہے۔ پولیس جرم کے خاتمے کے خلاف اپنے اختیارات کبھی استعمال نہیں کرتی۔ پولیس والے صرف بینکوں اور دفتروں کے سامنے پہرہ دے کر اپنی مدتِ ملازمت پوری کر لیتے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز کے افسران کو بھی ان ماؤں اور بہنوں کے آنسو نظر نہیں آتے، وہ کہتے ہیں منشیات کا خاتمہ ہمارا ٹاسک نہیں ہے، ہم اس شہر میں صرف دہشت گردوں کی تلاش میں نکلے ہیں۔

کیا ڈرگ مافیا دہشت گرد نہیں ہے؟ جو اس شہر کے نوجوانوں کی رگوں میں زہر بھرتا ہے اور وہ ساری زندگی چلتی پھرتی لاشیں بن کر رہ جاتے ہیں۔

گوادر کسٹم اور کوسٹ گارڈ کی کاردگی ٹیکسز کلیکشن کے لحاظ سے شاید ایف بی آر کی نظر میں بہت شان دار ہو لیکن گوادر کی ماؤں کا دکھ کسی ادارے اور افسر کو نظر نہیں آتا، گوادر کے ہر محلے میں سرعام منشیات کے اڈے چلتے ہیں۔

گزشتہ سال پیشکان کے راستے میں ایکسیڈنٹ کے بعد 19 اکتوبر 2022ء کو گوادر کسٹم کا ایک مقامی ملازم احمد واجو دنیا سے پردہ کر گیا۔ اس کے جواں سال بھانجے صابر کو بھی منشیات کے اژدہے نے ڈس لیا ہے۔

احمد واجو نے کراچی میں دسیوں دفعہ اپنے بھانجے صابر کا علاج کروایا مگر ہفتہ دس دن بعد وہ دوبارہ نشہ کرنے لگ جاتا ہے۔

جس جگہ گوادر کوہ بن وارڈ میں مولانا ریاض صاحب کا مدرسہ قائم ہے، یہ سارا علاقہ منشیات کا گڑھ ہے۔ روزانہ اس مدرسے کے پہلو میں کئی ماؤں کے لختِ جگر منشیات کی آگ میں جھلس جاتے ہیں، نہ پولیس اور ضلعی حکومت ان منشیات کے عادی افراد کے بارے میں سوچتی ہے اور نہ مدرسے کے کسی استاد کا اس جانب دھیان پڑتا ہے۔

مدرسے سے لے کر غوث اعظم دستگیر کے ٹھکانے (مزنیں پیر) تک کوہِ باتیل کے نچلے حصے کو خرگوش کے جیسا کھود کر منشیات کے عادی افراد نے اپنے لیے وہاں غارنما چھوٹے ٹھکانے بنائے ہیں اور اس محلے میں ہر دس قدم کے فاصلے پر ایک منشیات کا اڈہ بھی موجود ہے۔

ہم دس بچوں کو حافظ القرآن بناتے ہیں، یہ اچھی بات ہے لیکن اسی مدرسے کے سامنے گوادر کے سیکڑوں نوجوانوں کو منشیات کا اژدہا نگل جاتا ہے، اس غم میں مدرسے کے کسی استاد اور مولانا کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں!

میرا اپنا چھوٹا بھائی بھی نشے کی وجہ سے پانچ سال پہلے اپنا دماغی توازن کھو چکا ہے، اس کا علاج ابھی تک چل رہا ہے میں ہر تین ماہ بعد اسے چیک اپ کے لیے ہلالِ احمر اسپتال کراچی لے جاتا ہوں۔

جس دن احمد واجو کی فوتگی ہوئی، اس شام وہ حجام کی دکان سے بھاگ گیا تھا، پھر وہ رات کے دس بجے کوہ بن وارڈ میں منشیات کے ایک اڈے سے ملا اور صبح دوبارہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔

دفتر جاتے سمے راستے میں مجھے ہر روز احمد واجو کی بہن ماسی ہیری ملتی ہے، وہ مجھے دیکھ کر رو پڑتی ہے، ایک دن  :کہنے لگی

"احمد واجو کے جانے کے بعد میرا بیٹا صابر نشہ پینے کے لیے گھر والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، اس کی عقل کام نہیں کر رہی، اب احمد واجو تو دنیا میں نہیں ہیں، میں اسے نشہ پینے کے لیے پیسے کہاں سے لا کر دوں؟"

اب ماسی ہیری راستے میں کہیں بھی ملتی ہے تو ہم دونوں رو پڑتے ہیں کیوں کہ احمد واجو کے جانے کے بعد یہ بستی اب تک سوگ میں ہے۔

گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نالوں کی صفائی اور سڑکوں کی خوب صورتی کے واسطے اربوں روپے خرچ کر چکی ہے۔ جی ڈی اے، انڈس اسپتال گوادر کو سالانہ پچاس کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کرتی ہے لیکن اس اسپتال میں ایک ڈرگ ایڈک سینٹر کی اضافی شاخ نہیں کھولتی۔

گوادر پورٹ کے اپنے دسیوں ملازم بھی منشیات کے اژدہے کے بےرحمی سے شکار ہو چکے ہیں۔

گوادر شہر میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ، ریل وے لائن، کشادہ سڑکیں، اسکول اور پارک بننا اچھی بات ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر گوادر پورٹ کے فری زون ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کے ساتھ ایک ڈرگ ایڈک سینٹر بھی تعمیر کیا جاتا!

عیدالاضحیٰ سے پہلے پاک آرمی گوادر فش ہاربر کے احاطے میں دکانوں کی تعمیر کا کام مکمل کر لے گی مگر کوہِ باتیل کے نیچے بسنے والی ماؤں کی آبلہ آنکھوں کو شاید اس وقت قرار مل سکے جب فوج دہشت گردی کی طرح منشیات کے خاتمے کے خلاف بھی اعلانِ جنگ کر دے!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی