{ads}

عدنان شالیزئی

      محسن داوڑ بلاشبہ موجودہ پاکستانی سیاست کی کہکشاں کا نمایاں اور روشن ستارہ ہے۔ اس کی شخصیت و سیاسی قد کھاٹھ کا مشاہدہ کرنا اور بیان ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی محسن داوڑ کے سیاسی بیانیے اور کارکردگی کے حوالے سے چند سطریں پیشِ خدمت ہیں۔ 

محسن داوڑ بہ حیثیت قوم دوست : 

رحیم صاحب قوم پرست کی بجائے قوم دوست کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ محسن داوڑ روزِ اول سے پشتون قوم دوست سیاست کا حصہ رہے ہیں اور تاحال اسی طرزِ سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ محسن داوڑ، ولی خان بابا کے نقشِ پا پر چل رہے ہیں اور آج کے دور میں ولی خان بابا کی کمی پوری کر رہے ہیں۔ محسن داوڑ پشتون افغان قومی بیانیے کی ترجمانی اور عَلم برداری کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ہر فورم پر پشتون افغان قوم و وطن کی تاریخ، جغرافیہ، کلچر، زبان، رواج و روایات اور پشتون افغان قوم کی تاریخ ساز حریت پسند شخصیات کو قابلِ تقلید اور قابلِ ذکر انداز بیان میں یاد کرتے ہیں۔ 

محسن داوڑ بہ طور افغان وطن دوست :

افغانستان کی سرزمین پر عرصہ دراز سے جاری و ساری سام راجی و استعماری قوتوں اور جنگوں کے خلاف محسن داوڑ مؤثر و توانا آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ افغانستان میں امریکا بہادر اور علاقائی ممالک پاکستان اور ایران کی مدد سے  مجاہدین، طالبان اور دیگر مسلح جتھوں کی جانب سے مسلط کردہ جنگ و جدل اور سام راجی و استعماری منصوبوں کے خلاف محسن داوڑ نے عَلمِ حق بلند کر کے جنگ زدہ افغان عوام کی نمائندگی کر کے بہترین سٹیٹس مین ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ افغانستان کے مظلوم عوام محسن داوڑ کو اپنا ترجمان اور زخموں، غموں اور تکالیف کا مداوا اور علاج سمجھتے ہیں۔ 

محسن داوڑ کے واضح مؤقف و استدلال کی بہ دولت افغانستان کا سوال ہمسایہ ممالک بہ شمول پاکستان کے قومی اور عالمی منظرنامے کی زینت بنا ہے۔ جبری طور پر بندوق کے ذریعے مسلط کردہ نئی افغان حکومت کی جانب سے افغان عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف محسن داوڑ روزانہ کی بنیاد پر صدائے حق و نعرہ مستانہ بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ افغان عوام محسن داوڑ کی حق گوئی کو قدر و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ 

محسن داوڑ بہ حیثیت ایڈوکیٹ سول سپرمیسی : 

پارلیمنٹ میں جب بھی غیرجمہوری بل و قانون لانے کی بات ہوتی ہے، محسن داوڑ مخالفانہ دلائل دینے کے لیے فلور مانگتے ہیں۔ فلور نہ ملنے پر بہ طورِ احتجاج غیرجمہوری بل کو چیرپھاڑ کر ہواؤں کی نذر کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں آرمی ایکٹ پاس کرنے کی نوبت آئی تو محسن داوڑ نے اسمبلی فلور پر کہا کہ یہ بل آپ لوگوں کے گلے پڑے گا اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ مذکورہ قانون پی ٹی آئی کی سیاسی موت کا باعث بنا۔ الغرض، محسن داوڑ نے آج تک سول سپرمیسی، پارلیمنٹ کی بالادستی، اظہارِ رائے کی آزادی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خلاف بارہا آواز بلند کی ہے اور اداروں کو آئین و قانون کی حدود میں رہنے اور تجاوز نہ کرنے پر زور دیا ہے۔ 

محسن داوڑ بہ حیثیت بلوچ مظلومین کا ترجمان : 

محسن داوڑ کی بیٹی کا نام ایک مقتول بلوچ بچی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ محسن داو ماما قدیر کے ہم آواز بنے اور گمشدہ بلوچ افراد کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ بلوچوں کے وسائل پر بلوچوں کے اختیار کے لیے بلوچوں کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ بلوچوں کی سرزمین پر بلوچوں کے وسائل لوٹنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قبضہ چھڑانے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔ اسی سلسلے میں بلوچ مقتول بچی کے نام پر اپنی نوزائیدہ بیٹی کا نام رکھ کر بلوچ پشتون بھائی چارے کو فروغ دیا ہے۔

محسن داوڑ بہ طور سندھ کا ترجمان : 

محسن داوڑ نے خود اور پارٹی کے پلیٹ فارم سے سندھ کی حدود میں ہوئے ہر ظالمانہ فعل اور فاعل کی مذمت اور مزاحمت کر کے سندھیوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ اندرونِ سندھ غیرترقی یافتہ علاقہ جات کی ترقی و خوش حالی کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ سندھ میں ترقی پسند سیاسی قوتوں سے قربتیں بڑھا کر بھائی چارے کی فضا قائم کر کے سندھیوں اور پشتونوں میں دوریاں پیدا کرنے والوں کی سازشیں ناکام بنانے میں صفِ اول کا کردار ادا کیا ہے۔ 

محسن داوڑ بہ حیثیت تعلیم دوست : 

محسن داوڑ نے محض اپنی ایک نشست کی بہ دولت اپنے حلقہ انتخاب ضلع شمالی وزیرستان کے لیے یونیورسٹی، میڈیکل کالج، دانش سکول اور سیکڑوں سکول کی منظوری دلوائی ہے۔ حال ہی میں ضلع شمالی وزیرستان میں شرپسندوں نے دو سکول دھماکاخیز مواد سے تباہ کر دیے تو محسن داوڑ نے نجی محفل میں کہا کہ "وہ سکول اڑائیں گے اور ہم مزید سکول بنائیں گے۔"  محسن داوڑ کی اسی تعلیم دوستی اور ترقی پسند فکر و نظریے کی بہ دولت پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے سیکڑوں طلبا و طالبات کے لیے ہزاروں وظائف کی منظوری ہوئی ہے ۔

محسن داوڑ بہ حیثیت محافظ حقوقِ نسواں : 

افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے اعلان کے بعد سے لے کر آج تک محسن داوڑ نے اس حوالے سے ہر فورم پر مسلسل آواز اٹھائی ہے۔ ضلع شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تعلیمی اداروں کی منظوری اور تعمیر اسی سوچ کی عکاس ہے۔ این ڈی ایم کی صوبائی صدارت ایک خاتون بشریٰ گوہر کے حوالے کر کے پدرسری سماج کی فرسودہ رسوم و روایات کی بیخ کنی کر دی ہے۔ علاوہ ازیں مردوں کے برابر عورتوں کو حقوق دلوانے کے لیے ہر فورم کو استعمال میں لا کر محسن داوڑ نے عورتوں کے حقوق کا محافظ ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔ 

محسن داوڑ بہ طور عدم تشدد کا داعی : 

محسن داوڑ اپنے الفاظ کی ادائیگی کی حد تک بھی تشدد سے کام نہیں لیتے۔ اس معاملے میں وہ انتہائی حساس واقع ہوئے ہیں۔ باچا خان بابا، نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے فلسفہ عدم تشدد کو مشعلِ راہ بنا کر اپنا سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محسن داوڑ پاکستان و افغانستان میں تشدد کے عنصر کے خلاف ہیں اور تمام ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل کا واحد حل مذاکرات، مکالمے اور بات چیت کو قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے بھی ریاستی تشدد کے استعمال کو غیر انسانی عمل گردانتے ہیں۔ 

محسن داوڑ بہ حیثیت مقرر : 

ہیں دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور 

حضرت مرزا اسداللہ خان غالب کا یہ شعر محسن داوڑ کے اندازِ تکلم، بیان و تقریر کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ موجودہ سیاسی منظرنامے پر محسن داوڑ کی زبان حق گوئی کی معراج کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کراچی کے ساحل سے لے کر گلگت واسیوں تک، چمن کوژک ٹاپ سے لے کر طورخم سرحد تک اور کشمیر کی بلند چوٹیوں کے باسیوں سے کر تفتان کے رہائشیوں تک سب کی فریاد اور سب کے دلوں میں دبی آوازیں محسن داوڑ کی زبان سے ادا ہوتی ہیں۔ یاد رکھیے اسمبلی فلور پر سب سے زیادہ سوال اٹھانے والے اور سب سے زیادہ واضح مؤقف دینے والے محسن داوڑ ہی ہیں۔ طلبا و طالبات، کسان ، مزدور یونین، آئی ڈی پیز، فورسز کے ستائے ہوئے لوگ، بدامنی سے تنگ مظلومین اور اپنی زمین و اپنی معدنیات پر واک و اختیار سے محروم طبقے جب بھی احتجاجی مظاہرے، جلسے جلوس اور دھرنوں کا انعقاد کرتے ہیں تو اپنی نمائندگی کے لیے محسن داوڑ کو خصوصی دعوت مرحمت فرماتے ہیں۔ کیوں کہ محسن داوڑ کا ہے اندازِ بیان اور۔

 الغرض، محسن داوڑ اپنے قوم و وطن اور مظلوم اقوام کی خاطر اپنی توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے مثبت تبدیلی کا موجب بن کر ملکی سیاسی منظرنامے پر ان مٹ نقوش نقش کر کے تاریخ رقم کر رہے ہیں اور ہم ایسی شخصیت کے کندھے سے کندھا ملا کر، اس کی آواز میں ملا کر بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ " ہم محسن داوڑ کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔"

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی