{ads}

مرتضیٰ بزدار

  پندرہ اکتوبر 2023 کو شام کا وقت تھا جب ہم سارے دوست کمرے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اچانک ایک دوست نے کہا، یار چلو باہر چلتے ہیں، شال کے موسم کا مزہ لینے ہائے! کیا موسم ہے آج شال کا! میں نے بھی دوست کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ یوں باقی سب بھی تیار ہو گئے۔ 

ہم کاسی روڈ سے سیدھا میزان چوک کی طرف آئے اور وہاں سے ہوتے ہوئے لیاقت بازار کی جانب مڑے۔ واقعی آج شال کا موسم بہت حسین تھا۔ شال کو آج بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش بھی شروع ہوئی۔ یہ موسم سرما کی پہلی بارش تھی، جس نے شال کے رُخسار پہ چار چاند لگا دیئے۔ خیر شال کے حُسن اور موسم کو بھلا کون لفظوں میں بیان کرسکتا ہے۔ 

پھر میں تو ویسے بھی بقول سنگت، کچھ سیکھنے کے لیے فیس بک وغیرہ پہ پوسٹ کرتا رہتا ہوں تو ہماری وہ اوقات ہی نہیں کہ شال جیسی درس گاہِ کی شان کو بیان کرسکیں۔ شال ہی نے تو مجھے سب کچھ دیا۔ شال نے سیاست کے لفظ سے آشنا کروایا، اسی درس گاہ سے مجھے میری شناخت ملی، شعور ملا، احساس ملا، دوست ملے۔ اسی شال میں ہم دکھوں سے نمبردآزما ہوئے۔ کئی لوگ ہمشہ کے لیے چھوڑ گئے، شہید ہو گئے۔ کئی زندہ سلامت ہیں مگر کچھ فاصلے پہ ہیں، خدا انھیں  سلامت رکھے۔ بقولِ شاعر: زندہ سنگت مرے نن مرین یا مفن) یہ شال ہی ہے جو مجھ جیسے ناکارہ کو ابھی تک درس دے رہا ہے، سکھا رہا ہے۔ تجزیہ کرنے میں ہر لمحہ میری مدد کررہا ہے۔ شال کی مہربانیاں شال کے مہربانوں کے ساتھ یونہی مہربان رہیں۔ 

قصہ کچھ یوں ہے ہم مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے آخر کار کوئٹہ ہوٹل (شیردل غیب و امبل کا ہوٹل) ستار روڈ پہ پہنچے۔ دوستوں نے چائے کا آڈر دیا۔ بس اسی میں عشق کی داستان چِھڑ گئی۔ تقریباََ سب نے شیردل کے ناولٹ پڑھ رکھے تھے۔ ان میں سے میں ہی تھا جس نے ابھی تک ”امبل“ کی زیارت نہیں کی تھی۔ لیکن لازمی بات ہے کہ جب بادلوں سے لپٹا شال کا موسم، کوئٹہ ہوٹل ہو، شیردل اور امبل کی کہانی نہ دہرائی جائے تو یہ اپنے ساتھ ظلم ہے۔ 

سب سے پہلے دوستوں کا موڈ بنانے کے لیے میں نے ”تیرے فراق میں“ کی ایک کہانی شروع کی۔ کچھ جھوٹ کچھ سچ اپنے سے بولتا گیا اور مُسلسل بول رہا تھا کہ ایک دوست نے کافی گرم لہجے میں کہا، یار ہماری کہانیاں بھی سنو، تم نے صبح سے ”غیب اور امبل“ کا دامن تھاما ہوا ہے۔ میں یک دم خاموش ہوا اور جان چھڑاتے ہوئے کہا اچھا بھائی آپ اپنا کہانی بیان فرمائیں۔  اور پھر سب کو اپنے اپنے دُکھڑے بیان کرنے کا موقع مل گیا۔ شاید کہانی بیان کرنے سے دل ہلکا ہوتا ہے، بوجھ اُترتے ہیں۔ خیالات میں تبدیلی ہوتی ہے۔ یہی کچھ میں محسوس کررہا تھا۔ سب نے اپنی اپنی باری پہ غموں بھری داستان سنائی۔ کوئی کامیاب تو کوئی ناکام اور کوئی  پُراُمید سفر کی داستان سناتے ہوئے خاموشی اختیار کر گیا۔ 

آخر میں میری باری آئی تو میرے پاس کوئی حقیقی کہانی تو نہیں تھی جو میں بیاں کر سکتا۔ کچھ دیر بعد دوستوں کے اصرار پہ پھر میں نے ان سے کہا کہ بھائی میری کوئی عشقیہ داستان نہیں، اگر خوابوں سے کام چل سکتا ہے تو میں اک خواب بیان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یوں میں نے اس خواب کا ذکر شروع کیا جو میں کئی رات پہلے دیکھ چکا تھا اور اِس ہفتے بھی اس خواب کا ایک دورہ مجھے پڑا۔ یہ شاید میری کوئی نفسیاتی بیماری ہے یا اوپر والے کی مرضی سے زندگی میں میرے ساتھ کچھ اس طرح ہونے والا ہے۔ ( وَللہ باعلَم)! 

تو دوستو آئیں چلیں میرے خواب کی دنیا میں۔۔۔

اس رات میں نے دیکھا ایک ماہ جبین نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ زندگی بھر ساتھ چلنے کا وعدہ کررہی تھی۔ بار بار ہنس رہی تھی۔ مجھ پہ طنزکررہی تھی کہ تم مجھے چھوڑ جاؤ گے کیا؟ میں ہر بار کہہ رہا تھا، نہیں تم چھوڑنے کی چیز نہیں ہو، یہ ممکن ہی نہیں کہ تم سے دور ہو کر میں جی سکوں۔ پھر معصوم سے انداز میں سوال کرتی ہے کہ میں کیسے یقین کر لوں؟ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے اس سرزمین (بلوچستان) کی قسم، مجھے  شہیدوں  کی قسم، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ پھر وہ بھولے سے لہجے میں بولی:  اڑے شوم نی کنا زییا انت تعویز کررین اُس کہ ای داخا گنوخ مَسن اُٹ نا رند اَٹ۔ میں پھر اپنا وہی جواب دہراتا کہ مجھے سرزمیں کی قسم، میں بھی ویسے ہی تمہارا دیوانہ ہو گیا ہوں، مجھے خود کچھ پتہ نہیں! مجھے کسی تعویز پہ یقین ہی نہیں تو تم پہ کیا کرتا؟ پھر وہ معصوم چہرہ کھل اٹھتا اور میرے  چہرے پہ پھولوں کی برسات ہوتی۔  

یوں پوری رات ہم ایک ساتھ رہے۔ بہت ساری باتیں کیں۔ رخصتی سے پہلے ایک شخص مجھے بہت زور سے آوازیں  دے رہا تھا لیکن میں اس کی نہیں سن رہا تھا۔ بس میں اُس ماہ جبین کی طرف مکمل متوجہ تھا کہ شاید وہ کسی کام کی غرض سے وہاں سے غائب ہو گئی اور میں بے تاب سا ہوگیا۔ اِدھر اُدھر ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ 

میرا جسم پسینہ پسینہ تھا، میرا جسم کانپ رہا تھا اور ہاتھ لرز رہے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ میری جان نکل رہی ہے۔ زبان سُوکھ چکی تھی۔ بس دل سے یہ آہ نکل رہی تھی کہ اے خدا تو نے صبح کیوں کی؟ اگر صبح تمہارے فطرت کے نظام کا حصہ ہے تو مجھے کیوں زندہ رکھا؟ اسی خواب کی حالت میں  میرا دم نکال لیتے، میں اسی ماہ جبین کے خواب میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیتا ۔۔۔۔ مگر فطرت بھلا کہاں ہماری سنتی ہے، وہ تو بس اپنے اصولوں پہ چلتی ہے! 

بس ان ہی خیالوں میں صبح ہو گئی اور میرے ارمانوں پہ ہمیشہ کے لیے اوس پڑ گئی ۔ یہ ایک خواب ہے جس کی شاید ہی میری زندگی میں تعبیر ہو، اس لیے مہربانوں سے گزارش ہے کہ اسے بس ایک خواب ہی سمجھیں۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی